انسان صرف انفرادی زندگی نہیں رکھتا بلکہ وہ فطرتاً معاشرتی مزاج رکھنے والی مخلوق ہے۔ اس کا وجود خاندان کے ایک رُکن اور معاشرہ کے ایک فرد کی حیثیت سے ہی پایا جاتا ہے۔ معاشرہ اور خاندان کی تشکیل میں بنیادی اکائی میاں بیوی ہے، جن کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق ہیں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: اور (مردوں پر ) عورتوں کا حق ہے جیسا کہ (مردوں کا) عورتوں پر حق ہے، معروف طریقہ پر۔ (سورۂ البقرہ ۲۲۸)
اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا اور اگر اس جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے، تو اِس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی، اِن شاء اللہ۔
واقعی یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ الفاظ کے اختصار کے باوجود معانی کا سمندر گویا کہ ایک کوزے میں سمودیا گیا ہے۔ یہ آیت بتا رہی ہے کہ بیوی کو محض نوکرانی اور خادمہ مت سمجھنا بلکہ یہ یاد رکھنا کہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کی پاس داری شریعت میں ضروری ہے۔ ان حقوق میں جہاں نان ونفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے وہیں اس کی دلداری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی لیے رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہوگا جو اُن کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔
دوسری طرف اِس آیت میں بیوی کو بھی آگاہ کیا کہ اُس پر بھی حقوق کی ادائیگی لازم ہے۔ کوئی بیوی اُس وقت تک پسندیدہ نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو ادا کرکے اُس کو خوش نہ کرے۔ چناں چہ احادیث میں ایسی عورتوں کی تعریف فرمائی گئی ہے جو اپنے شوہر کی تابع دار اور خدمت گزار ہوں اور ان سے بہت زیادہ محبت کرنے والی ہوں۔ ایسی عورتوں کی مذمت کی گئی ہے جو شوہروں کی نافرمانی کرنے والی ہوں۔
شوہر کی چند اہم ذمہ داریاں یعنی بیوی کے حقوق شوہر پر:
٭ مکمل مہر کی ادائیگی:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، عورتوں کو ان کا مہر راضی وخوشی سے ادا کردو۔ (سورۂ النساء ۴) نکاح کے وقت مہر کا تعین اور شبِ زفاف سے قبل اس کی ادائیگی ہونی چاہیے، اگرچہ طرفین کے اتفاق سے مہر کی ادائیگی کو مؤخر بھی کرسکتے ہیں۔
٭ بیوی کے تمام اخراجات:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، بچوں کے باپ (یعنی شوہر) پر عورتوں (یعنی بیوی) کا کھانا اور کپڑا لازم ہے دستور کے مطابق۔ (سورۂ البقرہ ۲۳۳) رسولؐ اللہ نے فرمایا، عورتوں کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ کیوں کہ اللہ کی امان میں تم نے اُن کو لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے اُن کی شرمگاہوں کو تمہارے لیے حلال کیا گیا ہے۔ دستور کے مطابق اُن کا مکمل کھانے پینے کا خرچہ اور کپڑوں کا خرچہ تمہارے ذمہ ہے۔ (مسلم)
٭ بیوی کے لیے رہائش کا انتظام:۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو، وہاں اُن عورتوں کو رکھو۔ (سورۂ الطلاق ۶) اس آیت میں مطلقہ عورتوں کا حکم بیان کیا جا رہا ہے کہ عدت کے دوران میں ان کی رہائش کا انتظام بھی شوہر کے ذمہ ہے۔ جب شریعت نے مطلقہ عورتوں کی رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ رکھا ہے، تو حسبِ استطاعت بیوی کی مناسب رہائش کی ذمہ داری بدرجہ اولیٰ شوہر کے ذمہ ہوگی۔
٭ بیوی کے ساتھ حسنِ معاشرت:۔ شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ، یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں حسنِ اخلاق کے ساتھ معاملہ رکھو، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے۔ (سورۂ النساء ۱۹)
بیوی کی چند اہم ذمہ داریاں یعنی شوہر کے حقوق بیوی پر:
٭ شوہر کی اطاعت:۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا، مرد عورتوں پر حاکم اور نگراں ہیں۔ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں، وہ اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔ (سورۂ النساء ۳۴) رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، اگر عورت نے (خاص طور پر) پانچ نمازوں کی پابندی کی، ماہ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی، تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔ (مُسند احمد)
ایک عورت نے نبی اکرمؐ سے کہا کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے آپؐ سے ایک سوال کرنے کے لئے بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم مردوں کو دیا ہے۔ چناں چہ اگر ان کو جہاد میں تکلیف پہنچتی ہے، تو اُس پر ان کو اجر دیا جاتا ہے اور اگر وہ شہید ہوجاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندوں میں شمار ہوجاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود وہ زندہ رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی رزق ان کو دیا جاتا ہے۔ (جیساکہ سورۂ آل عمران آیت ۱۶۹ میں مذکور ہے) ہم عورتیں ان کی خدمت کرتے ہیں، ہمارے لیے کیا اجر ہے؟ تو نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، جن عورتو ں کی طرف سے تم بھیجی گئی ہو، ان کو اطلاع کردو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کے حق کا اعتراف تمہارے لیے اللہ کے راستے میں جہاد کے برابر ہے، لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیتی ہیں۔ (بزاز، طبرانی)
٭ شوہر کے مال وآبرو کی حفاظت:۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کی تابعدار ی کرتی ہیں اور اللہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔ (سورۂ النساء ۳۴) رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، میں تمہیں مرد کا سب سے بہترین خزانہ نہ بتاؤں؟ وہ نیک عورت ہے، جب شوہر اس کی طرف دیکھے، تو وہ شوہر کو خوش کردے، جب شوہر اس کو کوئی حکم کرے تو شوہر کا کہنا مانے۔ اگر شوہر کہیں باہر سفر میں چلا جائے، تو اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔ (ابوداود، نسائی) شوہرکے مال کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کے مال میں سے کچھ نہ لے، اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دے۔ ہاں، اگر شوہر واقعی بیوی کے اخراجات میں کمی کرتا ہے، تو بیوی اپنے اور اولاد کے خرچے کو پورا کرنے کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر مال لے سکتی ہے۔ جیسا کہ نبی اکرمؐ نے ہند بنت عتبہ سے کہا تھا جب انہوں نے اپنے شوہر ابو سفیان ؓکے زیادہ بخیل ہونے کی شکایت کی تھی، اتنا مال لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہاری اولاد کے متوسط خرچہ کے لیے کافی ہو۔ (بخاری مسلم) شوہر کی آبرو کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل نہ ہونے دے، کسی نامحرم سے بلا ضرورت بات نہ کرے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔
٭ گھر کے اندرونی نظام کو چلانا اور بچوں کی تربیت کرنا:۔ یہ عورتوں کی وہ ذمہ داری ہے جو ان کی خلقت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے، بلکہ یہ وہ بنیادی ذمہ داری ہے جس کی ادائیگی عورتوں پر لازم ہے۔ عورتوں کو اس ذمہ داری کے انجام دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ کیوں کہ اسی ذمہ داری کو صحیح طریقہ پر انجام دینے سے فیملی میں آرام وسکون پیدا ہوگا نیز اولاد دونوں جہاں کی کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہوگی۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب صحابۂ کرام اپنی بیٹی یا بہن کو رخصت کرتے تھے، تو اس کو شوہر کی خدمت اور بچوں کی بہترین تربیت کی خصوصی تاکید کرتے تھے۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے بچوں کی تربیت وغیرہ کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم) عورت کے دل میں شوہر کے پیسے کا درد ہونا چاہیے، تاکہ شوہر کا پیسہ فضول خرچی میں خرچ نہ ہو۔ گھر کو نوکرانیوں پر نہیں چھوڑنا چاہیے کہ وہ جس طرح چاہیں کرتی رہیں بلکہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کے داخلی تمام امور پر نگاہ رکھے۔
٭ چند مشترکہ حقوق اور ذمہ داریاں:۔ حتی الامکان خوشی وراحت وسکون کو حاصل کرنے اور رنج وغم کو دور کرنے کے لیے ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کے راز لوگوں کے سامنے ذکر نہ کیے جائیں۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا، قیامت کے دن اللہ کی نظروں میں سب سے بدبخت انسان وہ ہوگا، جو میاں بیوی کے آپسی راز کو دوسروں کے سامنے بیان کرے۔ (مسلم)
٭ شوہر باہر کے کام اور بیوی گھریلوکام انجام دے:۔ حضرت فاطمہ ؓ کی شادی کے بعد حضور اکرمؐنے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ ؓکے درمیان کام کی جو تقسیم کی، وہ اس طرح تھی کہ باہر کے کام حضرت علیؓ دیکھتے تھے، گھریلو کام مثلاً کھانا بنانا، گھر کی صفائی کرنا وغیرہ حضرت فاطمہ ؓ کے ذمہ تھا۔ غرض یہ کہ کہ دونوں ایک دوسرے کی خدمت کے جذبہ سے رہیں۔ باہر کام مرد انجام دے، عورت گھر کے معاملات کو انجام دے۔
٭ جنسی خواہشات کی تکمیل:۔ میاں بیوی کی مشترکہ ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی جنسی ضرورت کو پورا کریں۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد اپنی بیوی کو اپنی طرف بلائے (یہ میاں بیوی کے مخصوص تعلقات سے کنایہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ان تعلقات کو قائم کرنے کے لیے بلائے) اور وہ عورت نہ آئے یا ایسا طرز اختیار کرے کہ جس سے شوہر کا وہ منشا پورا نہ ہو اور اس کی وجہ سے شوہر ناراض ہوجائے، تو ساری رات صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، یعنی اس عورت پر خدا کی لعنت ہو اور لعنت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کو حاصل نہیں ہوگی۔ (بخاری ومسلم) حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، میاں بیوی کے جو باہمی تعلقات ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی اجر عطا فرمائے گا۔ صحابۂ کرام نے سوال کیا، یا رسولؐ اللہ! وہ انسان اپنی نفسانی خواہشات کے تحت کرتا ہے، اس پر کیا اجر؟ آپؐنے فرمایا، اگر وہ نفسانی خواہش کو ناجائز طریقے سے پورا کرتا ہے، تو اس پر گناہ ہوتا ہے یا نہیں؟ صحابۂ کرام نے عرض کیا، یا رسولؐ اللہ! گناہ ضرور ہوتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا، چونکہ میاں بیوی ناجائز طریقہ کو چھوڑکر جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کو اللہ کے حکم کی وجہ سے کر رہے ہیں، اس لیے اس پر بھی ثواب ہوگا۔ (مسند احمد )
٭ اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مشترکہ فکر وکوشش:۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، اے ایمان والو، تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں۔ (سورۂ التحریم ۶) جب مذکورہ آیت نازل ہوئی، تو حضرت عمر فاروقؓ نبی اکرمؐ کی خدمت میں تشریف لائے اور فرمایا کہ ہم اپنے آپ کو تو جہنم کی آگ سے بچاسکتے ہیں مگر گھر والوں کا کیا کریں؟ تو آپؐنے ارشاد فرمایا، تم ان کو برائیوں سے روکتے رہو اور اچھائیوں کا حکم کرتے رہو، اِن شاء اللہ یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچانے والا بنے گا۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔