سب سے پہلے میں حلفاً بیان دیتا ہوں کہ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ میں کسی سیاسی جماعت کا کارکن یا حامی ہوں۔ میں یہ بھی حلفاً بیان دیتا ہوں کہ ان سطور میں جو کچھ تحریر کر رہا ہوں، ان میں حسبِ سابق کسی بھی غلط بیانی سے کام نہیں لوں گا۔
پی کے پانچ سے ایم ایم اے کے امیدوار محمد امین صاحب سے میرا تعلق اور دوستی بہت پرانی ہے۔ محمد امین صاحب کو میں بڑا بھائی اور وہ مجھے چھوٹا بھائی سمجھتے ہیں۔ ہمارا زیادہ تر وقت ایک ساتھ گزرتا ہے جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ محمد امین صاحب 2002ء سے پہلے بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل شاہدرہ سے نائب ناظم کے امیدوار تھے، جس میں وہ ہار گئے تھے۔ 2002ء میں ایم ایم اے نے ان کو اس وقت کے صوبائی حلقہ پی کے80 اور موجودہ پی کے 5 کا ٹکٹ دیا، جس میں انہوں نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور پانچ سال تک اپنے حلقے کے عوام کی بھر پور خدمت کی۔ اُس وقت جب سوات تعلیمی بورڈ کو چکدرہ منتقل کیا گیا تھا، پر اسمبلی کے پہلے اجلاس میں حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے کھڑے ہوکر سوات تعلیمی بورڈ پر بات کی۔ یوں بورڈ کو واپس چکدرہ لے آئے، جس کی وجہ سے ان کو ملنے والی وزارت بھی چلی گئی۔ ہاں، یہ ہے کہ پانچ سال حکومت کے بعد سوات کے لوگوں نے ان کو ’’خادمِ سوات ‘‘ کے لقب سے نوازا۔ سوات کے لوگوں کا اب بھی ماننا ہے کہ اگر سوات اور مینگورہ شہر کے لیے کسی نے کام کیا ہے، تو اول نمبر پر والئی سوات ہیں، دوم ملک بیرم خان اور سوم محمد امین ہیں۔
2008ء کے انتخابات میں ان کی جماعت ’’جماعتِ اسلامی‘‘ نے انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ سب دوستوں نے محمد امین کو مشورہ دیا کہ وہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں۔ اس موقع پر اُن کی کامیابی یقینی تھی، لیکن انہوں نے انکار کیا، جس کی بنا پر ہم سب دوست ان سے ناراض ہوئے۔ اگلے روز انہوں نے گھر پر دال چاول کی دعوت دی اور کہا کہ میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ لوگ مجھے سنیں، اگر اس کے بعد بھی آپ نے اصرار کیا کہ میں آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لوں، تو پھر میں واقعی انتخابات کے لیے کاغذات جمع کرادوں گا۔ ہم سب دوستوں نے مشورہ کرتے وقت کہا کہ امین صاحب ہمیں قائل نہیں کرسکتے، اس لیے انہیں بہر صورت آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینا ہوگا۔ ہم ان کے دیرہ پہنچے، دال چاول، ساگ اور گوشت کے سالن سے ہماری تواضع کی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی بات شروع کی اور ہم خاموش بیٹھ کر سننے لگے۔ محمد امین صاحب کے بقول: ’’میرے والد صاحب مولانا مودودیؒ سے متاثر تھے۔ اس لیے وہ جماعت اسلامی میں تھے۔ میں جس گھر میں پیدا ہوا، تو خاندانی طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ ہوا۔ چھٹی جماعت سے سکول سے آنے کے بعد جماعتِ اسلامی کے پوسٹرز دیواروں پر لگایا کرتا تھا۔ 2002ء کے انتخابات میں جماعتِ اسلامی نے بغیر کسی سفارش کے مجھے ٹکٹ دیا اور میں ایم ایم اے کے ووٹوں سے کامیاب ہوا۔ انہوں نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پانچ سال دورانِ حکومت مَیں نے صرف اپنی تنخواہ پر گزارا کیا ہے۔ اب اگر میں پارٹی کے فیصلے سے بغاوت کرکے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لوں گا، تو لوگ سمجھیں گے کہ ایم پی اے بننے کے بعد پیسہ کما لیا ہے۔‘‘
اُس روز محمد امین صاحب کی باتیں سن کر ہم نے ان کے آگے سرِ تسلیم خم کیا۔
محمد امین صاحب جب ایم پی اے تھے، تو اس وقت تمام اراکین اسمبلی کو حکومت نے پولیس سیکورٹی دینے کا فیصلہ کیا۔ جب ایک ڈی ایس پی صاحب نے ان سے کہا کہ ’’ایم پی اے صاحب، ہم آپ کو چھے سات پولیس اہلکار آپ اور آپ کے گھر کی سیکورٹی کے لیے دے رہے ہیں۔ آپ پولیس اہلکاروں کا انتخاب کریں۔‘‘
محمد امین صاحب نے ان کو جواب دیا کہ ہماری کسی کے ساتھ دشمنی نہیں۔ میں مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس لیے مَیں پولیس سیکورٹی اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اس مکالمے کے بعد اس وقت کے ایس پی نے ان سے تحریر ثبوت کے طور پر لیا کہ وہ خود پولیس سیکورٹی نہیں لے رہے۔
اس بات کے تو سوات کے عوام خود گواہ ہیں کہ ان کے ساتھ کسی نے پولیس سیکورٹی نہیں دیکھی ہوگی۔
محمد امین کے کل اثاثوں میں والد کے گھر میں ان کا حصہ ہے۔ اگر اس کو وہ فروخت کردیں، تو مارکیٹ کے حساب سے تین سے ساڑھے تین کروڑ روپے ان کو ملیں گے۔ ایک کاروبار میں ان کا حصہ ہے، جس سے ماہانہ ملنے والی رقم سے ان کے گھر کا چولہا جلتا ہے اور بچوں کے تعلیمی اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں۔ محمد امین کی اہلیہ کے ساتھ تیس تولے سونا ہے اور گھر کے قریب چار عدد دکانیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی کوئی زمین، جائیداد، نقد یا بنک میں رقم موجود نہیں۔ ان کے پاس اپنی کسٹم پےڈ اور نان کسٹم پےڈ گاڑی دونوں نہیں۔ وہ جماعت اسلامی ضلع سوات کے امیر ہیں اور جماعت نے ان کو ایک پراڈو جیپ دیا ہے۔ جس روز وہ امیر کے عہدے سے دست بردار ہوئے، تو گاڑی جماعت کے حوالے کردیں گے۔
جتنا عرصہ میرا اور محمد امین صاحب کی دوستی کا ہوا ہے، تو میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ انتہائی ایماندار آدمی ہیں۔ جھوٹ بولنے کی عادت ان میں نہیں۔ پنجگانہ نماز پڑھتے ہیں۔ حرام کے پیسے کو وہ جہنم کی آگ سمجھتے ہیں اور ہر وقت مینگورہ اور سوات کی ترقی و خوشحالی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ووٹ ہر شخص کا اپنا حق ہے اور وہ جس کو چاہے دے سکتا ہے۔ چوں کہ محمد امین صاحب کو مَیں بہت عرصہ اور بہت قریب سے جانتا ہوں، اس لیے میرا فرض بنتا ہے کہ اپنے قارئین کو ان کے بارے میں آگاہ کروں۔ ان کے خلاف جو پروپیگنڈے کیے جا رہے ہیں، ان سے بھی قارئین با خبر ہوں۔ میرے نزدیک محمد امین حقیقت میں ’’ صادق اور امین ‘‘ ہیں۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔