انسدادِ منشیات کا عالمی دن

زمانۂ قدیم سے منشیات انسان کے ساتھ چلے آرہے ہیں۔ کاہل الفطرتی، مایوسی اور مسایل زندگی سے فرار انسان کو منشیات کے اندھیروں میں دھکیلتے ہیں اور پھر اس عارضی سکون کی خاطر انسان ان منشیات کا عادی بن جاتا ہے۔
آج سے کئی سال پہلے جب زندگی سادہ تھی، تو منشیات بھی سادہ تھے جیسے چرس، بھنگ، ڈوڈے اور افیون وغیرہ۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، تو منشیات کی نت نئی اقسام بھی بہ تدریج سامنے آئیں اور اس کے ساتھ ساتھ منشیات کے عادی افراد اور اس کا کاروبار کرنے والے افراد میں بھی اضافہ ہوا، چناں چہ دنیا میں کل آبادی کا تقریباً پانچ فی صد حصہ منشیات کا عادی اور اس کے کاروبار سے منسلک ہے۔
ہر سال چھبیس جون کو پاکستان سمیت ساری دنیا میں منشیات کا عادلمی دن منایا جاتا ہے۔ اس روز ساری دنیا میں سماجی ادارے اور مذہبی تنظیمیں وغیرہ منشیات سے اجتناب اور ان کی انسداد پر زور دیتے ہیں۔ یہ دن خصوصی طور پر اقوام متحدہ اور دیگر مغربی ممالک کے زیر سر پرستی منایا جاتا ہے جب کہ اس سلسلے میں امریکہ کا کردار نمایاں ہے اور یہ لوگ اس مہم پر کروڑوں ڈالرز خرچ کرتے ہیں۔
یہ دیکھ کر انسان سوچ رہا ہوگا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اس مہم پر اتنا خرچ کیوں کررہے ہیں اور انھیں اس مہم کو لانچ کرنے اور اس پر کثیر رقم خرچ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ در حقیقت جدید دور کے مروجہ منشیات اور دیگر ڈرگز ان ہی مغربی ممالک کی ایجادات ہیں جن میں ہیروین، براؤن شگر اور کوکین وغیرہ شامل ہیں۔ ان منشیات کے علاوہ شراب تو ان کی گھٹی میں پڑی ہے لیکن یہ جدید منشیات ان کے لیے بڑا دردِ سر اور مصیبت بن گئے۔ مغربی معاشرہ چوں کہ حقیقی سکون سے محروم ہے، اس لیے ان منشیات نے وہاں بہت جلد اپنا مقام بنا لیا وہاں بچے بوڑھے، جوان، مرد اور عورتیں ان منشیات کے رسیا ہیں۔ ان کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں جب کہ انھیں خود بھی معلوم ہے کہ ان کے پیدا کردہ ڈرگ مافیاز کے ہاتھ نہایت لمبے ہیں۔ اس کے مقابلے میں یعنی مشرقی ممالک خصوصاً اسلامی ممالک میں یہ منشیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مغربی دنیا آج حیران و پریشان ہے۔ خالق کاینات اپنی دنیا میں بگاڑ پسند نہیں کرتا اور مغربی دنیا کے لیے یہ بات ’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘ کی مصداق بن گئی ہے۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔