کفن چور اور ہم

پرانے زمانے میں کسی گاؤں میں ایک کفن چور ہوا کرتا تھا جس سے گاؤں کے لوگ بہت عاجز آچکے تھے، جب بھی کسی مردے کو دفن کیا جاتا، تو یہ کفن چور بڑی پھرتی اور مستعدی سے مردے سے کفن چراتا اور جب صبح گاؤں والے اٹھتے، تو اپنے پیارے کو بغیر کفن کے پاتے۔ وقت گزرتا گیا اور کفن چوری کا یہ سلسلہ جاری تھا۔ آخرِکار وہ بھی دن آگئے کہ یہ کفن چور بیمار پڑگیا اور اب اس کو اندازہ ہوگیا کہ مَیں دوبارہ صحت یاب نہیں ہو پاؤں گا۔ ایک دن کفن چور کا بیٹا اپنے باپ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ باپ کی آنکھوں میں آنسو ہیں او ر وہ بہت افسردہ ہے۔ بیٹے نے باپ سے وجہ دریافت کی جس پر باپ نے بیٹے کو بتایا کہ ’’بیٹا، میں نے آج تک صرف لوگوں کا دل دکھایا ہے، جب بھی گاؤں میں کوئی فوتگی ہوتی، تو میں بڑا خوش ہوتا اور رات کو جاکر مردے کا کفن چرالیتا تھا۔ اب سوچ رہا ہوں کہ قبر میں میرے ساتھ کیا حشر ہوگا؟ کیوں کہ زندگی بھر لوگوں نے بددعائیں ہی دی ہیں اور اب مرنے کے بعد بھی کو ئی چانس نہیں ہے کہ کوئی دعا دے۔‘‘ بیٹے نے جواباً اپنے والد کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ’’بابا جان، آپ فکر نہ کریں جب تک میں زندہ ہوں گاؤں کے لوگ آپ کو دعائیں دیں گے۔‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔ باپ کے مرنے کے بعد بیٹے نے باپ سے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے گاؤں والوں کو ستانا شروع کردیا۔ جب بھی کوئی فوتگی ہوتی، تو یہ نہ صرف مردے کا کفن چراتا بلکہ میت کی بے حرمتی بھی کرتا۔ اب گاؤں والے مزید پریشان ہوگئے او ر اس نئے عذاب کو دیکھ کر گاؤں والوں کو اس لڑکے کے والد کی یاد ستانے لگی۔ ہر کوئی کہتا کہ یار، اللہ تعالی بھلا کرے اس کے والد کا جو صرف میت کا کفن چراتا تھا، لیکن اس خبیث نے تو کفن چوری کے ساتھ ساتھ ہمارے پیاروں کی بے حرمتی بھی شروع کردی۔
قارئین، ٹھیک ایسا ہی حال خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتوں کا بھی ہے۔ لوگ ہمیشہ انتخابات میں خوشیاں مناتے ہیں کہ اس دفع ہماری بھلائی کے لیے سوچا جائے گا، لیکن یہ دیکھ کر کہ پچھلا حکمران کافی بہتر تھا، کفن چور کا واقعہ یاد آجاتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا 2013ء کے عام انتخابات سے قبل لوگ پچھلی حکومتوں کی طرزِ حکمرانی سے عاجز آچکے تھے۔ ہر کسی کی زبان پر یہ بات تھی کہ پچھلی حکومتوں نے صوبے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لہٰذا ہم اپنے لیے کسی نئے حکمران کا انتخاب کرتے ہیں۔ چناں چہ 2013ء کے عام انتخابات میں یہاں کے باسیوں نے پاکستان تحریک انصاف کا انتخاب کیا۔ پھر وہی ہوا جو شروع میں، مَیں نے کفن چور کا قصہ ذکر کیا۔ ایک دوسال تو دھرنے، لاک ڈاؤن اور دھاندلی دھاندلی کا کھیل کھیلتے گزر گئے۔ بعد میں صوبے کی حکمران جماعت کے سربراہ نے اعتراف کرلیا کہ دو سال تو ہم سے ضائع ہوگئے، لیکن اب ہم خیبر پختونخواہ کے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ایسا کام کریں گے کہ پنجاب تو کیا باہر کی دنیا بھی ہمارے وزیر اعلیٰ کے کاموں کو کاپی کرے گی، لیکن افسوس اس وقت ہوا کہ جب ان کے پانچ سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ ہوا اور صوبے کے عوام کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ بی آر ٹی (بس ریپڈ ٹرانزٹ) منصوبہ جو کہ پشاور میں پروان چڑھنا تھا، وہ صرف کھدائی کی حدتک پشاور کے شہریوں کے لیے دردِ سر بن چکا ہے۔ دوسری جانب سوات موٹر وے بھی ایک ڈراما ثابت ہوا۔ 350 ڈیم تو دور کی بات اہلِ مینگورہ کو پینے کاپانی تک میسر نہ آیا۔ بلین ٹری سونامی منصوبہ تو درکنار یہاں کے اپنے ہی جنگلات کو بے دردی سے کاٹا گیا۔ ’’صحت کا انصاف‘‘ منصوبہ کا سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پہ چرچا ضرور رہا، لیکن حال ہی میں شائع ہونے والی یو این ڈی پی کی رپورٹ نے ’’صحت کے انصاف‘‘ اور ’’تعلیمی ایمرجنسی‘‘ کا پول کھول دیا۔ اب رہی بات ترقیاتی کاموں کی، تو سوشل میڈیا سے باہر آکر اگر دیکھا جائے، تو کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوسکا ہے۔

حکمران جماعت کے بیشتر وزرا اور وزیر اعلیٰ پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے، تو پتا چلا کہ اگلے ہی روز احتساب کے ادارے کو تالے لگا دیے گئے۔ (Photo: SUCH TV)

ہم نے 90 دنوں میں کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے دعوے ضرور سنے، مگر اس میدان میں بھی کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ یہاں تک کہ حکمران جماعت کے بیشتر وزرا اور وزیر اعلیٰ پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے، تو پتا چلا کہ اگلے ہی روز احتساب کے ادارے کو تالے لگا دیے گئے۔ پوری دنیا میں پختونوں کی رسوائی اور جگ ہنسائی ہوئی۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے تو صرف کفن چرائے لیکن پی ٹی آئی والوں نے کفن چوری کے ساتھ ساتھ لاشوں کی بے حرمتی بھی کی۔
اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور وغیرہ میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو نچایا گیا جس سے پختون قوم کی رسوائی اور جگ ہنسائی ہوئی۔ اس کے علاوہ جب سینیٹ کے انتخابات کے نام پر ڈراما رچایا گیا، تو اس وقت بھی تبدیلی سرکار نے اپنی ہی پارٹی کے بیشتر افراد کو یہ کہہ کر نکالا کہ ان لوگوں نے دیگر پارٹیوں کے امیدواروں کو ووٹ دیے اور اس کے عوض کروڑوں روپے لیے، لیکن اگلے ہی رو ز ان تمام افراد نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ہم نے نہ تو ووٹ کسی اور کو دیے اور نہ کسی سے پیسے ہی لیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دیگر امیدواروں کو ووٹ کن ارکان پارلیمنٹ نے دیے؟ اس سے تو پتا چل جاتا ہے کہ جن افراد کو خان صاحب ایمان دار قرار دینا چاہ رہے تھے، ان میں سے ہی بیشتر افراد اس بھیانک دھندے میں مصروف رہے۔ پھر وہ بھی وقت آیا کہ خان صاحب نے سینیٹ چیئرمین کے امیدوار صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے پاکستان پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان تیر پر مہر لگا کر انہیں کامیاب بنایا۔ مطلب جو غریب پارلمنٹیرین تھے، ان کے خلاف تو کارروائی عمل میں لائی گئی، لیکن خان صاحب نے خود سارے سینیٹر پی پی پی اور صادق سنجرانی کی جھولی میں ڈال دیے اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ۔
تو میرے پختون بھائیو! ہم خود پر ہر مرتبہ کفن چور یا اس کے بیٹے کو ہی مسلط کرتے چلے آ رہے ہیں اور بعد میں رونا روتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہورہی ہے جس کے ذمہ دار دراصل ہم لوگ خود ہوتے ہیں۔ اب بھی عام انتخابات آرہے ہیں۔ اگر اس دفعہ بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور پھر کفن چور کے بیٹے کا انتخاب کربیٹھے تو رونا ہمار ا مقدر ہوگا۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔