گریجویشن کے بعد ہم نے مزید پڑھنے کا مصمّم اِرادہ کر لیا۔ اور کچھ دوست مل کر ایک ہی ساتھ یونیورسٹی جانے کے خواب دیکھنے لگے۔ مزید پڑھائی کی ضرورت ہم اِس لیے محسوس نہیں کر رہے تھے کہ خدا نخواستہ ہمارے عِلم میں کمی رہ گئی تھی یا ہماری شخصیت میں مزید نکھار کی ضرورت تھی بلکہ اِس کے پیچھے کچھ اور اِرادے اور خیالات کار فرما تھے جن میں سے ایک واضح غرض یہ تھی کہ ہم یونیورسٹی نہیں جائیں گے، تو جامعہ ہمارے بغیر ’’جامع‘‘ نہ ہو پائے گا۔ جامعہ کے مجمعے میں اِضافے کا خیال اور اُس میں اپنا کردار ادا کرنے کی غرض سے ہم نے یونیورسٹی میں داخلہ لے ہی لیا۔
یونیورسٹی میں داخلے کے ساتھ ہی ہمیں ہاسٹل میں رہنے کی پیشکش کی گئی جو ہم نے قبول کرلی۔ ہمیں ہاسٹل میں رہنے کے کئی فائدے نظر آئے۔ ایک یہ کہ گھر سے دور رہیں گے، تو گھر والوں کی روز روز کی نصیحتوں کی بجائے مہینے میں ایک آدھ بار گھر آنے پر ہماری قدر و منزلت میں کافی اضافہ ہوگا۔ اور پھر سارے محلّے والے بھی یہ سمجھ کر ہماری قدر کریں گے کہ ہم اِس ملک کے لیے بڑی قربانی دے رہے ہیں۔
دوسرا بڑا فائدہ ہمیں یہ نظر آیا کہ جو رنگ برنگے ملبوسات ہم روز زیبِ تن کریں گے، اُن کے رکھنے کے لیے کوئی مناسب جگہ ایک بلاترتیب کمرے کی شکل میں ہمیں میسر آئے گی۔ اب آپ یہ مت سمجھئے کہ ہمیں لائبریری سے لی گئیں ڈھیر ساری موٹی کتابوں کا خیال ہی نہیں تھا۔ ہم نے اُن کا بھی تو ڈھیر بنانا تھا، تو ہاسٹل کے کمرے میں ہی سہی۔ جہاں تک تعلق تھا اِن کتابوں کو پڑھنے کا، تو ہم تو پہلے ہی سے بہت پڑھے لکھے بن چکے تھے کہ ملک کے بہت کم لوگوں میں ہمارا شمار ہونے لگا تھا۔ کیوں کہ ہم گریجویٹ جو بن گئے تھے ۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ اس کے ایک ڈیڑھ عشرے کے بعد بھی بہت کوشش کے باوجود ہمارے پارلیمنٹ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر بھی اصلی گریجویٹ نہیں ملے۔ اور مجبوراً ملک کی ’’خدمت‘‘ کے جذبے سے سرشار کئی سیاست دانوں نے جعلی ڈگریاں بنوائیں۔ خیر، اس ذکر کو چھوڑیئے کہ ہم نے کون سا سیاست دان بننا تھا؟ ہم نے تو کیمیادان بننا تھا۔ پہلی کلاس کی تیاری میں ہم نے پورا گھنٹہ صرف کیا تاکہ ہمارا پہلا ہی تاثر آخری تاثر ہو۔ کپڑوں کی اِستری کو ہر زاویے سے پرکھا۔صرف ’’پرفیوم‘‘ لگانے پر اِکتفا کرنا ہم نے مناسب نہ سمجھا، تو اِس سے پہلے افٹر شیو اور کئی ایک کریموں کو اپنے چہرے کی قربت کی سعادت بخشی۔
کمرے سے نکلنے سے پہلے کڑی دھوپ سے بچنے کا خیال آیا، تو چھتری لینا ایک دیہاتی سا عمل لگا۔ ہاں، کالا چشمہ ضرور لگایا۔
اب خود کو ’’سلطنتِ رومانوی‘‘ کا شہزادہ سمجھنے لگے۔ دل میں کئی مرتبہ یہ خیال آیا کہ اگر پورا ایک ہفتہ ہم روزانہ اس ترتیب سے تیار ہوتے رہے، تو کیا عجب ہے کہ رومانوی فلموں کے کئی ڈائریکٹرز ہم سے اپنی فلم کے لیے ہیرو بننے کا کنٹریکٹ سائن کروانے کی تگ ودو میں لگ جائیں۔ لیکن ہم سائن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ محفوظ رکھیں گے۔ اب حقیقتاً ایسا کبھی ہوا نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم میں ہیرو بننے کا ترنگ ہی نہ تھا بلکہ یہ ڈائریکٹروں کی کم فہمی تھی کہ ہم پہ ایسی نظر نہ ڈالی۔ ورنہ ہمارا کیا تھا، اُن کی فلم رومانوی نہ سہی، تو کامیڈی فلم تو بن ہی جاتی۔
پہلی کلاس میں کیا پڑھا؟ یہ اِتنا ضروری نہیں تھا۔ جو اِس سے بھی اشد ضروری تھا وہ ہمارا مشاہدہ تھا جس سے حضرتِ علامہ اقبال ؒ کے شعر کے ایک مصرعہ کا فہم ہمیں نصیب ہوا:
وجودِزن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ
ہمیں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ ہم سے پہلے بھی کچھ بزرگ ایسے گزرے ہیں جو اِس طرح کے معاملات طے کر چکے ہیں، ہم اس میدان کے پہلے مجاہد نہیں۔ لہٰذا اب توقعات کو باامرِ مجبوری قدرے کم کرنا پڑا۔
روز کا یہ سلسلہ چلتا رہا کہ کلاس کے معطر ماحول میں نہ صرف زندگی سے بلکہ پڑھائی سے بھی اُلفت ہونے لگی کہ یہ اس سلسلے کو آگے بڑھانے کا واحد ذریعہ تھا۔ نہ پڑھنے کی صورت میں خدانخواستہ فیل ہوجاتے اور یونیورسٹی سے نکالے جاتے، تو پھر ہیرو بننے کی آرزو تو خیر ہماری پوری ہی نہ ہوتی بلکہ جامعہ کے مجمع میں کئی عرصہ تک ہماری کمی محسوس ہوتی۔ یوں ہم نے دنیاداری کے لیے پڑھنے اور دِل داری کے لیے کلاسیں لینے کو اپنا معمول بنالیا۔ ہمیں یوں لگنے لگا جیسے دوسری طرف سے بھی سرمئی آنکھیں، کریمی رُخسار اور اُلجھی لَٹیں، ساتھ ساتھ گیسوؤں کے سنورنے کا انداز ہمیں باقاعدگی سے کلاسیں لینے کے لیے نصیحت کر رہا ہو۔ لیکن یہ نصیحت ہمیں معمول کی نصیحتوں کی طرح بُری نہ لگی اور دل کرتا رہا کہ یہ نصیحت یوں ہی برقرار رہے ۔
ہمیں اپنی شخصیت میں ٹھہراؤ اور بہتری کے آثار دکھائی دینے لگے۔ اب ہم پہلے جیسے نہیں رہے تھے کہ نصیحتوں پر ناک بھوں چڑھاتے بلکہ عمل کرنے کے پکّے ارادے کے ساتھ بہ سروچشم انہیں قبول کرتے گئے۔
ہمارا اس طرح تعلیمی میدان میں اُترنا کئی اگلے پچھلوں کے لیے خطرہ سمجھا گیا۔پچھلے چوں کہ ابھی تھے ہی نہیں، اس لیے فی ا لفور صرف اگلے والوں کو ہی اِس جارحانہ انداز سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ پر ہمیں کیا، ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ بقول صادِق حسین صاؔدِق
تندیِ بادِمخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُنچا اُڑانے کے لیے
ہمیں اپنی صلاحیتوں پر نہ صرف یقین تھا بلکہ فخر بھی تھا اور اس کا مظاہرہ کرنے کے لیے یک روزہ پکنک کے دوران چشمہ میں کرکٹ میچ کے میدان میں ہم بہت اعتمادسے اُترے۔ جب ہمیں ایک مشکل وقت میں اپنی ٹیم کی بیٹنگ کو سہارا دینے کے لیے نہ صرف اپنی صلا حیتوں کو آزمانا تھا بلکہ ان کو ثابت کرنے کا بھی سنہری موقع میسر آیا۔
گراؤنڈ میں داخل ہونے کا ہمارا انداز گریٹ بریڈمین کی طرح نہ سہی ویون رچرڈ ز سے تو بالکل ہی کم نہ تھا۔ ہمارے اِس انداز کو دیکھ کر مرد شائقین کی طرف تو خیر ہم نے زیادہ توجہ نہ دی لیکن خواتین شائقین کی داد نے ہمیں اور بھی رُستمِ زماں بنا دیا۔ وکٹ پر جاتے ہی ایک مدبّرانہ انداز میں فیلڈ کا معائنہ کیا اور ریفری سے گارڈ لیا۔ انداز تو ایسا تھا جیسے ابھی گیند آنے کی دیر ہے کہ باؤنڈری کے باہر بھی ڈھونڈھنے کو نہ ملے گی۔ باؤلر گیند کرنے کے لیے دوڑا کہ ہمیں ابھی اِس کو مارنا تھا کہ یکایک تمام فیلڈرز ایک ساتھ ہونے کو دوڑے اور چیخنے، اُچھلنے اور کودنے لگے۔ہمیں اُن کا یہ انداز نہایت ہی بھونڈاپن لگا۔ پیچھے وکٹوں پرجب نظر ڈالی، تو وہ بجائے عمودی صورت میں رہنے کے زمین پر آرام فرما تھیں۔ارے یہ کیا! کہیں ہم پہلی ہی گیند پر تو بولڈ نہیں ہوئے؟ ریفری کی طرف دوبارہ دیکھنا اس لیے مناسب نہ سمجھا کہ وہ بھی بجائے سنجیدگی کے یا ہمارے ساتھ افسوس کرنے کے، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اُنگلی ہوا میں اُٹھائے ہوئے تھے۔ ’’بھلا منصف ایسے ہوتے ہیں!‘‘ ہم نے دل ہی دل میں احتجاج کیا اور بلا ّلے کے اپنے ہم جماعتوں کی طرف جانے کی بجائے دوسری طرف چل دیے کہ اُس جانب سے ہمارے کانوں کو عجیب مضحکہ خیز آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے اور مومن خان موؔمن کی بات سمجھ میں آنے لگی کہ
کیا گل کھلے گا دیکھیے، ہے فصلِ گُل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔