"یہاں کی ہریالی عجیب ہے، جو مختلف رنگوں کے پھولوں سے مل کر فردوسی رنگ میں ڈھلی ہوئی ہے۔ سرسبز کھیتوں کے درمیان نیلے رنگ کا دریا جہاں دور سے ہیبت طاری کرتا ہے، وہاں قریب سے اس کا ادویائی پانی نہ صرف انسانی کشش کا باعث ہے بلکہ یہاں کے رہنے والوں کے رزق کا وسیلہ بھی ہے۔ پھلوں، پھولوں اور خوش مزاج لوگوں کے اس دیس میں ہر قدم پر تہذیبیت ہے جب کہ چاروں طرف پہاڑ تاریخ و تہذیب کے قصے سنانے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں رنگ بہ رنگی خانقاہیں، راہبوں اور طالب علموں سے بھری پڑی ہیں۔ جہاں دن رات علم کا ورد اور امن کا درس دیا جاتا ہے۔ جہاں صبح اور شام کے وقت میٹھے جرس اور دل آویزماحول میں ہلکی موسیقی اپنا رنگ جماتی ہے۔ یہاں رزق کی فراوانی ہے اور لوگ خوش حال ہیں۔ تجارتی قافلوں کی ریل پیل ہے اور مہمان نوازی کا بو ل بالا ہے۔ جہاں آئے ہوئے ہر مہمان کی بلا تفریق رنگ و نسل تین دن تک مہمان نوازی کا رواج ہے۔ جہاں پدما سمبھاوا (بدھا ثانی) نے جنم لیا اور یہاں سے جنوب مشرقی ایشیاء میں بدھ مت کو پھیلایا۔ جگہ جگہ سے جوق در جوق علم کے پیاسے آتے ہیں اور ادھیانہ کی سرزمین سے علم کے خزینے لے لے کر واپس جاتے ہیں۔ یہ سلطنت ادھیانہ ہے ، ادھیانہ یعنی شاہانہ باغ۔”
اوپر کا اقتباس قدیم زمانے میں چین سے آئے ہوئے زایرین کے سوات کے بارے میں تحریری تجربات کا خلاصہ ہے۔ ہندوؤں کی مقدس شخصیت مہاراجہ رام چندر جی نے ایلم کی پہاڑی پر بن باس، سن یاسی کر کے اسے ہندوؤں کے لیے بھی مقدس بنایا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایلم پہاڑی کی عظمت اور تقدس کی روایات زرتشتیوں، پارسیوں اور یونانیوں کی کتابوں میں بھی ملتی ہیں۔
صدیوں سے اپنے دامن میں مختلف تہذیبوں کو جنم دینے والی وادیٔ سوات نہ صرف بدھ مت بلکہ، ہندو مت اور مسلمانوں کے لیے بھی یکساں اہم اور مقدس وادی ہے۔ یہی وہ سرزمین ہے جو بدھ مت کے پیروکاروں اور ہندوؤں کے لیے مقدس ترین جگہ کی حیثیت رکھتی ہے اور یہاں آنے کے لیے تمام بدھ مت کے پیروکار بے تاب ہیں۔ سوات کی تاریخی اور تہذیبی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے لیے کچھ ذاتی تجربات پیش نظر ہیں۔ مئی 2014ء میں، مَیں ایشیاء کے صحافیوں کے ساتھ سنگاپور کے دورے پر تھا۔ سنگاپور کی حکومت ہمیں مختلف منصوبوں اور جگہوں کی سیر کر وا رہی تھی اور سا تھ ساتھ ہر منصوبے اور جگہ کے بارے میں بریفنگ بھی دے رہی تھی۔ اس دوران میں ہمیں ایک عجایب گھر جانے کا بھی اتفاق ہوا جہاں گائیڈ ہمیں مختلف حصوں میں لے جا کر معلومات فراہم کر رہا تھا کہ اچانک گائیڈ احتراماً خاموش ہوگیا اور ہم تمام سے بھی خاموش رہنے کی التجا ء کی۔ پھروہ دھیمی آواز میں کہنے لگا: ـ’’یہ بدھا کا مجسمہ ہے جو تاریخی اعتبار سے نہایت قیمتی ہے۔ کیوں کہ اس مجسمہ کا تعلق ادھیانہ سے ہے جو آج کل پاکستان کے خیبر پختون خوا صوبے میں ضلع سوات کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘‘ سوات کا نام سن کر تمام صحافی دوست میری طرف دیکھ کر مسکرائے جس پر ہمارے گائیڈ نے وجہ دریافت کی۔ نیپال سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ موصوف سوات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جوں ہی گائیڈ کو معلوم ہوا کہ میر ا تعلق سوات سے ہے، تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میرے پاس آیا اور میری تعظیم میں دست بستہ کھڑا ہوگیا۔ اب کیا تھا تمام لوگوں کو نظر انداز کرکے وہ مجھ سے سوات کے بارے میں پوچھتا رہا اور میں گائیڈ بن کر جوابات دیتا گیا۔ اسی طرح سنگاپور ہی میں ایک دن ہم ایک علاقہ سے گزر رہے تھے کہ میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر ادھیانہ لکھا ہوا تھا۔ ادھیانہ کا لفظ پڑھ کر میری جستجو اور بڑھ گئی۔ بورڈ پر لکھے ہوئے ٹیلی فون نمبر کو نوٹ کیا۔ شام کو جب اپنے کمرے میں آیا، تو میں نے متعلقہ فون نمبر پر کال کی اور اپنا تعارف کرنے کے بعد ان کے ادارے کے بارے میں پوچھا، تو معلوم ہوا کہ وہ ایک فلاحی ادار ہ ہے جو لوگوں کے دکھ درد میں کام آتا ہے۔ ٹیلی فون پر بات کرنے والے نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، تو میں بھی یک دم راضی ہوا۔ قصہ مختصر اگلے روز میں اُسی عمارت پہنچا جہاں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ’’موجودہ سوات ہمارے لیے اتنا اہم اور مقدس ہے جتنا مسلمانوں کے لیے مکہ معظمہ ہے، وہاں کا ذرہ ذرہ ہمارے لیے مقد س ہے۔ کیوں کہ وہاں سے ہمارے گورو رینپوشے (پدما سمبھاوا) نے جنم لیا ہے۔ـ‘‘ منتظم نے کہا کہ جب میں وہاں سے رخصت ہوا، تو پشتومحاورے ’’من من غٹ شوے ووم‘‘ کے مصداق تھا۔
مگر انتہائی خوشی کے ان لمحات میں، مَیں فکر مند بھی ہوا۔ فکرمند اس لیے کہ اللہ تعالی نے ہمیں جس خوب صورت وطن سے نوازاہے، چند ہی سالوں میں ہم نے اس کا جو حشر کردیا ہے، وہ حقیقتاً اب دنیا کو دکھانے کے قابل نہیں رہا ہے۔ یہاں کے قدرتی حسن کو جس طریقے سے ہم پاؤں تلے روند رہے ہیں، یہ ایک الگ کہانی ہے مگر جس طرح ہم نے یہاں کے تہذیبی ورثے کو پامال کیا ہے اور کر رہے ہیں، اس کی مثال دنیا کے کسی کونے میں نہیں ملتی۔ درجنوں گروپس جو یہاں کے تاریخی آثار میں غیر قانونی کھدائی اور اسمگلنگ میں مصروف ہیں، وہ ہماری تاریخ کو انتہائی تیزی سے مسخ کررہے ہیں۔
تاریخ دانوں اور آرکیالوجی کے ماہرین کے مطابق سوات میں دس فی صد تحقیق بھی نہیں ہوئی اور ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑے پیمانے پر یہاں کی آثار قدیمہ کی کھدائی کر کے تحقیق کی جائے اور اس میں دفن ہزاروں سال کی تاریخ کو سامنے لایا جائے۔ کوئی پیسوں کی لالچ اور کوئی مذہبی مغالطے میں تاریخی و تہذیبی ورثے کو جس طرح تباہ کر رہا ہے، اگر اس کی بروقت روک تھام نہ کی گئی، تو جلد ہی سوات کسی کھنڈر کی شکل پیش کرے گا۔ ویسے بھی ہم تیزی سے یہاں کے قدرتی حسن کو غلیظ کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہے ہیں اور یہی حال یہاں کے تاریخی و تہذیبی ورثے کا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ قدیم اقوام نے وادیٔ سوات کو جنت کا گہوارہ بنایا تھا، یہاں کے کونے کونے میں امن او آشتی کے بیج بوئے تھے اور اسے تہذیبوں کا مسکن بناکر ہمارے لیے چھوڑدیا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے جنگلی اقوام کی طرح اس کی خوب صورتی کو بگاڑ کر اسے بدصورت تو بنا ہی لیا ہے اور ساتھ ہی یہاں کے سکون کو خون کی ہولی کھیل کر غارت کر دیا ہے۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔