رات کے تقریباً دو بجے کامریڈ علی ابتسام کی کال آئی کہ ہم ثریا عظیم اسپتال جو کہ چوبرجی میں واقع ہے، کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ کال رکھتے ہی میں اور کزن وہاں پہنچے۔ کامریڈ سبط حسن اور علی ابتسام کریم گاڑی میں وہاں ہمارے منتظر تھے۔ مجھے گاڑی کی اگلی نشست پر بیٹھنے کو کہا گیا۔ ارادہ یہ تھا کہ کہیں ایسی جگہ بیٹھا جائے جہاں کچھ کھانا پینا اور لمبی خوش گپی کا ماحول بھی بن جائے ۔ کریم والے عثمان بھائی کو ساندھا روڈ پر پلستر بند برگر والے کی جانب جانے کو کہا گیا۔ اُسی لمحے میرے دوستوں اور کریم والے عثمان بھائی کے درمیان ایک عجیب سا مکالمہ شروع ہوگیا۔ عثمان بھائی تھوڑے اُکتائے ہوئے معلوم ہوئے اور یہاں سے آگے نہ جانے کا اصرار شروع کردیا۔ چوں کہ غالباً طے یہ ہوا ہوگا کہ چوبرجی جا کر ہم رائیڈ ختم کر دیں گے، تو اسی معاہدے کے مطابق عثمان بھائی اب ذرا مزید اصرار کرنے لگے کہ رائیڈ ختم کردی جائے ۔ ان کی پریشانی کا سبب شائد یہ بھی تھا کہ رات کے دو بجے ہم کچھ دوست ان کو گھما رہے ہیں اور رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ معلوم نہیں کب کیا ہوجائے۔ علی ابتسام کے کرارے جوابات مجھے یاد تو نہیں مگر یہ ضرور یاد ہے کہ اس سے ماحول میں کشیدگی بڑھتی جارہی تھی۔ سبط حسن بھی جلتی پر تیل کا کام کرتے رہے اور کیپٹن عثمان صاحب کو مزید غصہ دلانے میں کامیاب رہے ۔
میں ایک طرف آگے کی نشست پر سہما بس اسی خدشے کو لیے بیٹھا تھا کہ کب گاڑی روک کر لڑائی ہاتھاپائی تک پہنچے اور میں اکیلا اس کشیدگی کو ختم کرنے میں ناکامی کا منھ دیکھوں۔

تھیٹر میں جاری ایک ڈرامے کی لی گئی تصویر۔ (فوٹو: لکھاری)

میں چوں کہ کریم والے کیپٹن کو بھی بھائی اور سر کہہ کر مخاطب کرتا ہوں، تو مجھے اسی طرح کی گفتگو کی عادت تھی۔ میرے گھر کی جانب تین سے چار کلومیٹر کا راستہ شدید خستہ حالی کا شکار ہے، تو بعض اوقات تو میں ٹوٹی پھوٹی روڈ پر اس قدر پیاری گاڑی کی چیخیں سُن کر کیپٹن سے معذرت بھی کر لیتا ہوں۔
گفتگو کے دوران میں ہی سبط حسن کا کہنا تھا کہ آپ ہم سے پانچ سو نہیں پندرہ سو لے لیجیے گا، بس ہمارے ساتھ رہیے۔ ہم اکٹھے سحری کرتے ہیں۔ اسی دوران میں کچھ لینے دینے کی باتیں بھی ہوئیں جس کو بیان نہیں کرپاؤں گا۔ خیر، میں اس صورت حال میں اچھی خاصی کشمکش کا شکار تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ اسی تلخ گفتگو میں پلستر بند برگر والے کا پوائنٹ آگیا اور سبط حسن کے کہنے پر کریم والے عثمان بھائی ہمارے ساتھ جانے کو تیار ہوگئے ۔
گاڑی سے اُترتے ہی سبط حسن اور کیپٹن عثمان دونوں کی صورتوں سے واضح تھا کہ یہ سب مذاق تھا اور واقعی میں یہ سب مذاق تھا۔ مگر کریم والے کیپٹن عثمان ہیں کون؟ اور میں یہ بھی کیسے بھول گیا کہ میں لاہور کے تھیٹر میں ایک بڑے نام مخوٹے کے بانی سبط حسن کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ سبط حسن نے 201 1ء میں پاکستان کے سب سے بڑے تھیٹر گروپ ’’اجوکا‘‘ کے ساتھ پیشہ وارانہ طور پر کام شروع کیا۔ اس سے پہلے وہ اسکول کالج میں تھیٹر کا ہمیشہ حصہ رہے۔ یونیورسٹی کے دور میں بھی اچھا نام کمایا۔ پنجاب یونیورسٹی کی ڈراما سوسائٹی کا خاص حصہ رہے۔ جامعہ کو بہت سے ڈرامے اور تھیٹر کرکے دیے اور بہترین کارکردگی کی بنا پر ایوارڈز بھی حاصل کیے۔
ان کا دوسرا تعارف بھی بڑا دلچسپ ہے۔ سبط حسن نے ترقی پسند سیاسی ماحول میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کامریڈ زوار کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے فرزند کا نام ترقی پسند دانشور سبط حسن سے متاثر ہوکر رکھا۔ آج سبط حسن پیپلز پارٹی سے منسلک پی ایس ایف پنجاب میں اہم عہدہ رکھتے ہیں۔ میرے لیے ان کی سیاسی اور سماجی دونوں طرح کی سرگرمیوں کا مشاہدہ ایک دلچسپ تجربہ رہا۔ دنیا نیوز میں کام کرنے والے علی ابتسام سے اس کی دوستی مثالی معلوم ہوتی ہے۔
اس کہانی کے مرکزی کردار کیپٹن عثمان دراصل عثمان چوہدری ہیں۔ انہیں ’’اجوکا‘‘ کے ساتھ کام کرتے ہوئے غالباً چار سال کا عرصہ ہوگیا ہے اور وہ آج بھی ’’اجوکا‘‘ کی پروڈکشنز کا خاص حصہ ہیں۔ عثمان مخوٹے کے ساتھ بھی تھیٹر کرتے ہیں اور فلم ڈراما سب پر ہاتھ صاف کر چکے ہیں۔ ان کا کریم والے تھیٹر کے بارے میں کہنا تھا کہ ابھی تو کچھ کیا ہی نہیں ہے۔ ہاں، مگر میرے تاثرات نے اس کو واقعی ایک حقیقی صورتحال ضرور بنا دیا تھا۔ اس کہانی کو یہیں روکنا پڑے گا، نہیں تو عثمان بھائی کا پھر سے یہ گلا ہوگا کہ یار، بور کردیا۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔