ہم نہیں بھولے چوراسی کے زخم

عرصۂ دراز سے بھارت میں رہنے والے مسلم، سکھ اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے کبھی مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے بہانے قتل کیا جاتا ہے، تو سکھوں کو ’’خالصتان تحریک‘‘ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور ان کو تشدد کا نشانہ بنا کر بے دردی سے مار دیا جاتا ہے۔
گجرات کے ہزاروں معصوم مسلمان بھائیوں کا قاتل ’’نریندر مودی‘‘ جب سے اقتدار میں آیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہاں کے انتہا پسند ہندو اور دہشت گرد تنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ (راشٹریہ سیوک سنگ) کو جیسے کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ وہ جو چاہے، جہاں چاہے کسی بھی مسلم، سکھ یا مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی وحشت اور درندگی کا نشانہ بنا کر بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں اور پوچھنے والا تو ان سے کوئی ویسے بھی نہیں۔ کیوں کہ ان دہشت گردوں کا بانی جو وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہے۔
دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے مسلمان بھائی اِن ہندوؤں کے چنگل سے نجات حاصل کرنے کے لیے عرصۂ دراز سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کشمیری بہن بھائیوں پر بھارتی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم، جنہیں دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ گذشتہ مہینے ہم نے دیکھا کہ کشمیر کی معصوم ننھی آصفہ کو انتہا پسند ہندوؤں نے اپنی ہوس کا نشانہ بناکر بڑی بے رحمی سے قتل کیا اور بعد میں اسے پھینک دیا۔

جون 1984ء جو سکھ قوم کی تاریخ کا سیاہ ترین سال اور مہینہ سمجھا جاتا ہے.

ایسے ہزار ہا دل دہلا دینے والے واقعات ہمارے سامنے موجودہیں۔ نریندرمودی کے برسرِ اقتدار آنے سے بھارت کی اقلیتی برادری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے۔ بی جے پی نے جب سے حکومت سنبھالی ہے، تب سے پنجاب اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں سکھوں کے گورودواروں کو شہید کروایا گیا۔ سکھوں کی مقدس کتاب ’’سری گورو گرنتھ صاحب‘‘ کی جگہ جگہ بے حرمتی کی گئی۔ سکھوں نے بھارت سمیت دنیا بھر میں انتہا پسند ہندوؤں کی ان بزدلانہ کارروائیوں کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ پر آج تک کسی بھی مجرم کو گرفتار کرکے عدالت کے کٹہرے میں لاکر پیش نہیں کیا گیا۔ بھارتی حکومت یا وہاں کے کچھ انتہا پسند عناصر جن کو حکومت کی جانب سے بھرپور پشت پناہی حاصل ہے، کانگریس کے دور میں کسی نہ کسی طریقے سے حمایت حاصل رہی ہے۔ بھارت کی دہشت گرد تنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ کا وجود ابھی نہیں بلکہ اٹھارا سو چھبیس میں اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس کا مقصد پہلے سے طے شدہ تھا کہ انگریزوں کے چنگل سے آزادی ملتے ہی اس تنظیم کو ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں سے یہ دھرتی خالی کرکے بھارت میں صرف اور صرف ہندوؤں کا راج قائم کیا جائے گا۔ باقی غیر ہندوؤں کو یا تو زبردستی ’’ہندو ازم‘‘ تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے گا، وگرنہ بھارت کی سرزمین ان پر تنگ کر دی جائے گی یا ان کا وجود ہی بھارت سے ختم کردیا جائے گا۔
سب سے پہلے گاندھی اور ان کے ہم خیالوں نے سکھوں کو ہندوستان کی آزادی میں بھرپور استعمال کیا۔ سکھوں کے نام نہاد لیڈر جو بنیادی طور پر ہندو تھے، انہوں نے بس سکھوں کا لبادہ ہی اوڑھا تھا۔ ماسٹر تارا سنگھ اصل میں گاندھی ہی کے ایجنٹ تھے۔ ان کو آج تک سکھ تاریخ میں ’’قوم کے غدار‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی غدار کے ذریعے سکھوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا۔ حا لاں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کئی بار سکھوں کو خبردار کرچکے تھے کہ یہ ہندو بڑی مکار قوم ہیں۔ ابھی یہ آزاد نہیں ہوئی۔ پر جیسے ہی آزاد ہوگی، تو ان کی جعل سازیوں کا آپ کو پتا چل جائے گا۔ پر اسے سکھوں کی ناسمجھی کہیں یا لیڈر کی کمی کہ شہید بھگت سنگھ کو بھی پھانسی پر چڑھانے والوں میں مہاتما گاندھی شامل تھے۔ وہ پہلے سے ہی اس جوان لڑکے کے عزائم سے بخوبی واقف تھے۔ گاندھی بڑے شاطر دماغ تھے۔ وہ بھگت سنگھ کی چلائی جانے والی تحریکیں جو انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے تھیں، جن میں پاک و ہند کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھگت سنگھ کی زیرِ نگرانی آزادی کی جنگ لڑ رہی تھی، اس لیے گاندھی اس خطرے کو پہلے سے محسوس کر رہے تھے کہ انگریزوں سے آزادی حاصل ہوتے ہی بھگت سنگھ ’’خالصہ ریاست‘‘ کی بنیاد رکھے گا۔ یہی وہ چیز تھی بھگت سنگھ کی جو گاندھی کو کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی۔ اس لیے گاندھی نے انگریزوں سے مل کر اپنے راستے سے اس کانٹے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔ جیسے ہی بھارت دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اُبھرا، تو ’’آر ایس ایس‘‘ کے کارندوں نے اپنا پہلا وار سکھوں پر کیا۔

سب سے پہلے گاندھی اور ان کے ہم خیالوں نے سکھوں کو ہندوستان کی آزادی میں بھرپور استعمال کیا۔

سنہ 1956ء سے ہندوؤں کی طرف سے سکھ مذاہب پر مختلف طریقے سے وار کرنے شروع کیے۔ ان کا مقصد سکھوں پر ہندوستان کی زمین تنگ کرنا تھا اور سکھوں کو کسی بھی طرح ہندو دھرم اپنانے پر مجبور کیا جانا تھا۔ ایسے میں پنجاب کی دھرتی سے ایک نوجوان سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا والے نے ہندوؤں کے اس رویے کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ ان کی ایک آواز پر پورا پنجاب اور ہندوستان کے مختلف حصوں میں مقیم سکھوں نے لبیک کہا۔ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا والے نے بھارت کے حکمران طبقے کو بار بار یاد دلایا کہ آزادی کے وقت سکھوں سے جو وعدے کیے گئے ہیں، آج کیوں وہ بھلا دیے گئے ہیں؟ پر ہندوتوا کے نظریے پر کاربن ہندو اپنے ارادے کب بدلنے والے تھے۔ ہندوؤں کے اس رویے پر سکھ نوجوان جوق در جوق سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا والے کے کارواں میں شامل ہوتے گئے اور ان کی آواز میں آواز ملا کر آگے بڑھنے لگے۔ اس موقع پر بس ایک ہی آواز سنائی دیتی تھی ’’بن کے رہے گا خالصتان۔‘‘ پورے ہندوستان میں آزادیِ خالصتان کی تحریک زور پکڑنے لگی، تو ہندو بنیے کو فکر لاحق ہوگئی اور ان کی طرف سے مذاکرات کی بجائے تشدد کا راستہ اپنایا گیا۔
جون 1984ء جو سکھ قوم کی تاریخ کا سیاہ ترین سال اور مہینہ سمجھا جاتا ہے، اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے حکم پر ’’آپریشن بلیو سٹار‘‘ کروایا گیا۔ سکھوں کے سب سے مقدص مذہبی مقام ’’سری ہرمندر صاحب‘‘ (گولڈن ٹیمپل) پر ٹینکوں اور توپوں سے حملہ کرکے ہزاروں بے گناہ معصوم سکھ عورتوں، بچوں اور مردوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے کے دوران میں سکھوں کے رہنما سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا والے بھی جان کی بازی ہار گئے۔
دوسری طرف سکھ، اندرا گاندھی سے بدلہ لینے کی تلاش میں تھے۔ بارہ اکتوبر انیس چوراسی کو اندرا گاندھی کے سیکورٹی گارڈ ستونت سنگھ اور بیانت سنگھ نے اندرا گاندھی کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کے اپنی قوم کا قرض چکا دیا۔ سنت جرنیل سنگھ بھنڈراوالے تو اب نہیں رہے اس دنیا میں۔ پر ان کی چلائی ہوئی تحریک ’’آزادیِ خالصتان‘‘ آج بھی زندہ ہے اور سکھ دنیا کے ہر فورم پر بھارت کی اس جارحیت کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب خالصتان ایک آزاد ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔