کس کا جشن منائیں گے؟

حالاں کہ پچھلے ایک عرصے سے پختون تحفظ تحریک کی چھتری تلے جاری احتجاجی تحریک کی سرگرمیوں میں روزوں کی وجہ سے توقف سا آیا ہے، لیکن سوشل میڈیا کے محاذ پرحسبِ معمول گہما گہمی ہے۔ ملکی سطح پر میڈیا بلیک آؤٹ کے باوجود یہ تحریک، پختونوں کے ساتھ گذشتہ سات دہائیوں سے روا رکھے جانے والے ریاستی سلوک، چار دہائیوں سے جاری کرب و غم کی دردناک کہانیوں اور انسانی المیوں کی روداد کو سوشل میڈیا اوربین الاقوامی نشریاتی اداروں کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے بڑی بہادری اور کامیابی کے ساتھ پیش کر رہی ہے۔ پختونوں کی کئی تحاریک، جرگے، سماجی پلیٹ فارمز اور سیاسی پارٹیوں کے سرگرم کارکنان اس تحریک کا حصہ بن چکے ہیں۔ تین مہینوں سے جاری احتجاجی ماحول نے لاکھوں انسانوں کے ذہنوں پر ایک لمبے عرصے کا چھایا ہواڈراور خوف کا قصہ تمام کر دیا ہے۔ اس تحریک نے فاٹا اور پاٹا، دونوں میں سیکڑوں چیک پوسٹوں پر طویل عرصہ سے جاری جمعہ داریوں کا خول توڑ کر لوگوں کو آزادانہ آمد و رفت کا موقع فراہم کیا ہے۔ سرچ آپریشنز کی بھرمار سے،ٹارگٹ کلنگ کے تسلسل سے، انسانی گمشدگی کے المیوں سے اور مختلف قابض قوتوں کی مخلوقِ خدا کے ساتھ غیر انسانی، غیر تہذیبی گھناؤنی حرکات سے عام لوگوں کو چھٹکارا نصیب ہوگیا۔ جیلوں میں’’دردِ دل کی وبا سے‘‘ اُس پار پہنچنے والے قیدیوں کی گنتی محدود ہوگئی۔ کسی جیل خانہ میں تبدیل کردہ وزیرستان صفحۂ ہستی پر پھر سے نمودار ہوا اور اس کے باسیوں کو کسی مقدمہ کے بغیر پابندِ سلاسل رہنے سے آزادی ملی۔ غداری کے ٹھپے لگانے کا سٹاک ایکسچینج مارکیٹ دھڑام سے نیچے گر کر زمین بوس ہوگیا۔ ذمہ دار لوگوں کو بجا طور پریاد دلایا گیا کہ
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
اب چیک پوسٹوں کے سُرخ سائن بورڈز ’’رُک جاؤ ورنہ گولی مار دی جائے گی‘‘ کا پاجامہ پہننے کی بجائے سبز ہلالی پرچم کے رنگ میں ’’خوش آمدید‘‘ کی شلوار قمیص پہنے نظر آ رہی ہیں۔ چیکنگ کرنے والوں کی دہشت زدہ نظروں سے اب خیر و برکت اور امیدِ سحر کی پو پھوٹنے لگی ہے۔ بے شک وہ اپنے کیے دھرے پر شرمسار، پشیمان اور حیران ہوئے لگ رہے ہیں،جواُن کا بنیادی حق ہے۔ چچا غالب مرحوم و مغفور نے کبھی بڑی کلاس کی غزل لکھی ہے ، جس کے چند اشعار کمال کے ہیں، موقع محل سے مشابہت ذرا ملاحظہ فرمائیں اور سوچیں۔ واللہ، اُن اشعارکو بے حساب و بے کتاب گانے کو جی کرتا ہے:
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفاسے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا ، پشیماں ہونا
رمضان نے تحریک کی سرگرمیوں کو بظاہر دھندلا دیا ہے، لیکن حکومت کو کچھ کرنے کے لیے ٹف ٹائم دیا ہے۔ قبائل کے مستقبل کے حوالے سے میڈیا پر جاری بحث و مباحثہ کے اتوار بازار کو یکلخت شٹ ڈاؤن کیا گیا اور اُن کو قومی دھارے میں لانے کے لیے آئینِ پاکستان میں درکار قانونی شق، جس کو عمومی حالات میں مختلف مراحل سے پاس کرنے کے لیے مزید ایک صدی چاہیے ہوتی ہوگی۔ چشمِ زدن میں قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلی سے ’’گو تھرو‘‘ کرواتے ہوئے صدرِ مملکت کے واجبی دستخطوں سے صوبۂ خیبر پختون خوا کے اٹوٹ انگ بنائے گئے، تو لوگ حیرت زدہ ہوئے کہ یہ انہونی جو اگر چہ ابھی لولی لنگڑی ہے یا لولی پاپ کی شکل میں ہے، کیسے ہوئی؟ جو بھی ہے ، اس فیصلہ کی وجہ سے جہاں پچاس لاکھ پشتون ایک کربِ مسلسل سے نکل کر اپنی ہی قوم کے ساتھ آزاد اور سکون کی زندگی جینے جا رہے ہیں، وہاں بعض سرکاری ملازمین، این جی اوز، ملَک، جرائم پیشہ اور سمگلر مافیاز کا تابناک مستقبل تاریک ہونے والا ہے۔ یہ مافیاز اب شور مچا رہے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور اُن کے پیروکاروں کااس فیصلے کے بعض منفی پہلو ؤں پر ’’سٹینڈ‘‘ اپنی جگہ مسلم لیکن فوری طور پر اس کے شارٹ ٹرم مثبت پہلوؤں کا پلڑا بھاری لگتاہے۔ فاٹا کے انضمام کا فیصلہ کن قوتوں نے کیا ہے اور کیوں کیا ہے؟ اس میں شفافیت اور نیک نیتی کا عنصر کس حد تک ہے؟ کون سی قوتیں اس میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں اور کیوں ڈال رہی ہیں؟ یہ سوالات اٹھانے کا وقت، اب نہیں۔ اب اس فیصلے کے منفی پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے دیگر ضروری اقدامات کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھانے کا وقت آ گیاہے۔ مرحوم فاٹا اور پاٹا دونوں میں اب تک جتنے بھی ترقیاتی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے، وہ زیادہ تر کاغذوں میں تو ہیں، حقیقت میں نہیں۔ اب سو ارب روپے کے اعلان کردہ پیکیج کو اجتماعی ترقی کے کاموں میں استعمال کرنے کے لیے ٹھوس میکینزم بنانے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی ایم کے رہنما ڈاکٹر سید عالم مسعود نے بجا فرمایا ہے کہ فاٹا کے انضمام پر اختلاف اور اس کے مستقبل کی جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے حقوق کے حصول اور اسے ترقی کی دوڑ میں شریک کرنے کے لیے بیدار ہوجایا جائے۔ وفات پانے والے فاٹا کے جسم میں نئی جان ڈالنے کے واسطے مختص فنڈز کے شفاف استعمال پر بھر پورتوجہ دی جائے۔

پی ٹی ایم کی ملک گیر تحریک نے حکمرانوں کو مشکل فیصلے کرنے کے لیے قدم بڑھانے کی ہمت دی ہے۔ (Photo: dailytimes.com.pk)

رخشندہ ناز کہتی ہیں کہ اختیارات کی سول انتظامیہ کو حوالہ کرنے اور اس عمل میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے درکار اقدامات پر بھرپور توجہ دی جائے۔
ہونا چاہیے کہ فوری طور پر ’’ہائی پاورڈ کمیشن برائے بحالی جنگ زدہ علاقہ جات‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہو، جو ڈائریکٹ وزیرِ اعظم کے ماتحت ہو۔ کمیشن، جنگ زدہ علاقوں کا سروے اور اعداد و شمار جمع کرے، لوگوں کی سماجی، معاشی اور معاشرتی بحالی کے لئے فوری، درمیانی اور طویل المدتی منصوبے بنائیں اور جنگی بنیادوں، ہاں! جنگی بنیادوں پر میرٹ اور اولیت کے مطابق عملی کام کی شروعات کریں۔ کمیشن صوبے کی متعلقہ وزارتوں کو فنڈز اور منصوبے بنا کر دے اور کام کی مانیٹرنگ خود کرے۔ علاقے کے کاشتکاروں کی حالت میں بہتری مقصود ہو یا بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے سکالر شپس، ملک اور بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے، فنی تربیت دینے اور ملازمت کی فراہمی کے لیے مالی تعاون اور خدمات کی فراہمی ہو، خواتین کو مین سٹریم میں لانے کے لیے درکار اقدامات ہوں، یہ تمام کام مجوزہ کمیشن، متعلقہ صوبائی وزارتوں کے ذریعے سر انجام دے۔
کمیشن، جنگ زدہ علاقوں کے لوگوں کے ذمے بینکوں کے واجب الادا قرضے معاف کرائے اور متاثرہ افرادکو بلا سود قرضوں کی فراہمی کے لیے بنگلہ دیش کے ’’گرامین بینک‘‘ کے طرز پر ایک بینک بنائے جو کاغذی کارروائی کم سے کم تر کرے اور قرضوں کی ادائیگی کاکام آسان تر کرے۔ سمیڈا جیسے ادارے کی نئے ٹرائبل اضلاع میں ’’گرامین بینک‘‘ کی طرز پر ریسٹرکچرنگ کی جا سکتی ہے۔
کمیشن ایک ٹرسٹ بنائے جو یتیموں، بیواؤں اور معذوروں کی سماجی بہبود و ترقی کے لیے کام کرے۔ ہر نئے ضلع کی حدودمیں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے پوسٹ گریجویٹ کالجز بنائے۔ صوبے میں موجود ایگری کلچر، میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے کیمپس قائم کرے۔ لنڈی کوتل ہسپتال کی طرز پر جدید سہولتوں سے آراستہ ہسپتا ل جگہ جگہ تعمیر ہوں۔ آمد و رفت میں آسانی اور سیاحت کے فروغ کے واسطے وادئی باجوڑ سے مہمند، خیبر، اورکزئی، وزیرستان اور کرم تک کے علاقوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے لیے ایکسپرس ویز اور ہائی ویز بنیں اور پشاور سے طورخم تک سفاری ٹرین کی بحالی کا جائزہ لیا جائے۔
یہ کمیشن ایک اور ضروری کام یہ بھی کرے کہ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کی مختلف ا قوام اور اداروں کے بیچ پیدا ہونے والی نفرت، کدورتوں اور دوریوں کو کم کرنے کے لیے ’’بین القومی یا بین الا صوبائی ہم آہنگی و مفاہمتی ونگ ’’نیشنل ہارمنی اینڈ ری کانسیلی ایشن ونگ‘‘ بنائے، جو چاروں صوبوں کے عوام کے مابین باہمی محبت، صلح صفائی اور ہم آہنگی کے رجحانات کو فروغ دینے کے لیے سیمینارز، ورک شاپس، سٹڈی سرکلز، ٹاک شوز، سوشل نیٹ ورکنگ وغیرہ جیسی سرگرمیوں پر کام بھی کرے اور بین الصوبائی وفود اورطائفوں کے تبادلوں کا بندوبست بھی کرے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری مزید تجاویز پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
پی ٹی ایم کی ملک گیر تحریک نے حکمرانوں کو مشکل فیصلے کرنے کے لیے قدم بڑھانے کی ہمت دی ہے اور عدم تحفظ کے شکار طبقے میں بیداری کی ایک نئی لہر پھونک دی ہے۔ امید ہو چلا ہے کہ سوشل میڈیا پر بڑے مختصر وقت میں چھا جانے والی یہ ڈھیلی ڈھالی تحریک ہر قسم کی بندشوں اور رکاوٹوں کو عبور کرتی ہوئی، ایک ایسی منظم شکل اختیار کرنے والی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کے مظلوم طبقات کی ترجمان بنے گی۔ وقت کا بڑا اور فکر انگیز سوال یہ ہے کہ ایک روبہ توسیع، رو بہ ترقی اور پُر امن پختون خوا میں اتفاق و اتحاد، یکجہتی اور اُمیدو بیم کے اِن پُر لطف لمحات کا جشن کیسے منا یا جائے؟ اوریہ بھی سوچتے جائیں کہ مستقبل قریب میں اور کس کس خوشی کا جشن منائیں گے؟ اس موقع پر پاکستان کے عوا م اور عوامی نمائندوں کو ہدیۂ تبریک اوردنیا بھر کے پختونوں کونئے پختون خوا میں نئے ولولوں کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات مبارک!
تمام عمر خوشی کی تلاش میں گزری
تمام عمر ترستے رہے خوشی کے لیے

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہں۔