موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومت ختم ہونے میں چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔ آئندہ انتخابات جولائی کے آخری ہفتہ میں ہونے کا امکان ہے جس کے لئے سوات میں سیاسی جوڑ توڑ اور سیاسی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ویسے تو ماہِ صیام میں سیاسی سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں لیکن اس بار عام انتخابات میں کم وقت رہنے کی وجہ سے سوات میں ماہِ صیام کے دوران میں بھی سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سوات میں ابھی تک صرف اے این پی نے قومی اسمبلی کی تین میں سو دو اور صوبائی اسمبلی کی آٹھ میں سے سات نشستوں پر اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔ ایک قومی اور ایک صوبائی نشست کے اضافے کے بعد ان دو نشستوں پر ابھی تک اے این پی نے امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا۔ اے این پی کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے ابھی تک اپنے امیدواروں کی نامزدگی کا اعلان نہیں کیا۔ تحریک انصاف کی جانب سے امکان ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 2 پر موجودہ صوبائی وزیر کھیل محمود خان امیدوار ہوں گے۔
نئے قومی حلقہ این اے 3 پر این اے 2 سے منتخب موجودہ ایم این اے سلیم الرحمان اور پی ٹی آئی کے صوبائی رہنما عدالت خان آف قمبر میں سے کسی ایک کو ٹکٹ ملنے کا امکان ہے۔ این اے 4 پر موجودہ ایم این اے مراد سعید، پی کے 2 پر ن لیگ سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے میاں شرافت علی، پی کے 3 پر موجودہ ایم پی اے ڈاکٹر حیدر علی، پی کے 4 پر ایم پی اے عزیز اللہ گران، پی کے 5 پر ایم پی اے فضل حکیم، پی کے 6 پر ایم پی اے ڈاکٹر امجد علی، پی کے 7 پر سعید خان، پی کے 8 پر مشیر ماہی گیری محب اللہ خان اور پی کے 9 پر وزیر کھیل محمود خان کو ٹکٹ ملنے کا امکان ہے۔ حلقہ بندیوں میں رد و بدل کے بعد موجودہ ایم پی اے عزیز اللہ گران نے این اے 3، پی کے 4 اور 6 کے ٹکٹ کے لئے پارٹی کو درخواست دی ہے۔ اس طرح مشیر ہاؤسنگ ڈاکٹر امجد علی نے پی کے 6 اور 7 کے ٹکٹ کے لئے درخواست دی ہے، تاہم فیصلہ پارٹی کا پارلیمانی بورڈ کرے گا کہ وہ کس کو ٹکٹ دیتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی ابھی تک کسی امیدوار کی نامزدگی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، تاہم ن لیگ کے قریبی ذرائع کے مطابق این اے 2 کا ٹکٹ صوبائی صدر امیر مقام، این اے 3 کا سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر عبدالرحیم، این اے 4 کا فیروز شاہ ایڈووکیٹ کو ملنے کا امکان ہے۔ اس طرح صوبائی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر ن لیگ کے ٹکٹ پی کے 2 میں امیر مقام، پی کے 3 میں سردار خان، پی کے 4 میں امیر مقام، پی کے 5 میں ارشاد خان، پی کے 6 میں حبیب علی شاہ، پی کے7 میں افضل شاہ، پی کے 8 میں عظمت علی خان اور پی کے 9 میں ناظم عبداللہ خان کو دیے جانے کا قوی امکان ہے۔ ن لیگ اور ایم ایم اے کے درمیان سوات میں اتحاد کا بھی امکان ہے اور اس سلسلے میں رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں ن لیگ اور ایم ایم اے کے ضلعی رہنماؤں کے درمیان ملاقات کا بھی امکان ہے۔ اگر ن لیگ اور ایم ایم اے میں اتحاد ہوگیا، تو پھر قومی و صوبائی نشستیں ن لیگ، جے یو آئی اور جماعت اسلامی میں تقسیم ہوں گی جس کے لئے فارمولا تینوں جماعتوں کے ضلعی رہنما تیار کریں گے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر سوات میں ن لیگ اور ایم ایم اے کا اتحاد ہو گیا، تو پھر یہ اتحاد کلین سویپ بھی کرسکتا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے این اے 2 کا ٹکٹ افضل خان لالا مرحوم کے فرزند بریگیڈئیر محمد سلیم خان، این اے 4 کا شیر شاہ خان (بانڈئی) کو دیا گیا ہے، لیکن ایک قومی حلقہ کے اضافے کے بعد ان دونوں ٹکٹوں میں رد و بدل کا امکان ہے اور ایک حلقہ میں ایک اور امیدوار کا اعلان بھی ابھی باقی ہے۔ صوبائی حلقوں میں پہلے ہی پی کے 2 کا ٹکٹ موجودہ ایم پی اے سید جعفر شاہ، پی کے 3 قجیر خان، پی کے 5 واجد علی خان، پی کے 6 شیر شاہ خان، پی کے 7 وقار خان، پی کے 8 رحمت علی خان اور پی کے 9 کا ٹکٹ ایوب خان اشاڑے کو دیا گیا ہے لیکن حلقہ بندیوں میں رد و بدل کے بعد رحمت علی خان کی خواہش ہے کہ ان کو این اے 4 کا ٹکٹ دیا جائے۔ صوبائی حلقوں میں اضافے کے بعد پی کے 4 میں ن لیگ کے رہنما، وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے قریبی رشتہ دار آزاد رکن ضلع کونسل عاصم اللہ خان نے کچھ روز قبل اے این پی میں شمولیت کا اعلان کر دیا تھا جس کے بعد قوی امکان ہے کہ پی کے 4 کا ٹکٹ اے این پی، عاصم اللہ خان کو دے دے۔ سیاسی مبصرین اس فیصلہ کو اے این پی کا بہتر فیصلہ قرار دے رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ابھی تک ٹکٹوں کی تقسیم نہیں کی۔ تاہم امکان ہے کہ این اے 3 کا ٹکٹ شاہی خاندان کے شہزادہ میاں گل شہر یار امیر زیب کو دیا جائے گا۔ صوبائی اسمبلی میں پی کے 3 کا ٹکٹ سابق امیدوار محمد شاہی خان کو ملنے کا امکان ہے۔ باقی ٹکٹوں کا فیصلہ درخواستوں کے بعد پیپلز پارٹی کرے گی لیکن پی کے 6 میں پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر عرفان چٹان اور حلقہ بندیوں سے پہلے اس حلقہ میں انتخابی سرگرمیاں جاری رکھنے والے مختار رضا خان دونوں اس حلقہ سے ٹکٹ کے لئے مظبوط امیدوار ہوں گے۔
قومی وطن پارٹی سوات کشمکش کا شکار ہے۔ سوات میں قومی وطن پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ شہری حلقہ پی کے 5 مینگورہ سے ملتا تھا۔ آئندہ انتخابات میں اس حلقہ سے ان کے امیدوار سابق سینٹر کامران خان مرحوم کے فرزند، سابق سنیٹر شجاع الملک خان اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کے بھائی سابق تحصیل ناظم رفیع الملک کامران تھے، لیکن رفیع الملک کامران خان خاموشی سے پارٹی چھوڑ گئے۔ امکان تھا کہ وہ تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کریں گے اور ان کو این اے 3 یا پی کے 5 کا ٹکٹ دیا جائے گا، لیکن ابھی تک نہ تو وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور نہ ہی انہوں نے قومی وطن پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفا دیا ہے۔ قومی وطن پارٹی کے زونل چیئرمین اور سابق امیدوار پی کے 5 فضل الرحمان نونو کے قریبی ساتھی تحصیل کونسلر شوکت علی خان نے بھی اس حلقہ کے ٹکٹ کے لئے پارٹی کو درخواست دی ہے جس کے بعد کیو ڈبلیو پی کے کارکنوں کا خیال ہے کہ درخواست انہوں نے فضل الرحمان نونو کی مشاورت سے دی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ فضل الرحمان نونو آئندہ انتخابات نہ لڑنے کے خواہش مند ہیں۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔