اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی بندگی کے لیے بھیجا ہے۔ انسان یہاں چند روز کا مہمان ہے۔ یہ اپنی مہلت اور مدت مکمل ہونے کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہوگا۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جو یادِ الٰہی میں اپنا وقت گزار دے۔ جو اللہ رب العزت کی رضا جوئی کے لیے ہر لمحہ بے قرار رہے، جس کا ہر عمل سنت نبویؐ کے مطابق ہو۔ جس کا ہر کام شریعتِ مطہرہ کے مطابق ہو، ایسا انسان دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کامیاب ہوتا ہے۔
قارئین کرام! شعبان کا مہینہ بڑا بابرکت ہے۔ اس لیے کہ یہ رمضان کا مقدمہ ہے۔ جیسے سورج طلوع ہونے سے پہلے صبح کی سفیدی نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہے اور آہستہ آہستہ بڑھتی رہتی ہے حتیٰ کہ پورا سورج نکلنے سے تھوڑی دیر پہلے ایسی ہی ہوتی ہے جیسے سورج نکل آیا ہو۔ اسی طرح رمضان المبارک کی برکات پندرہ شعبان کی رات سے شروع ہوجاتی ہیں۔ صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا، تو ہم رسولؐ کے اعمال میں تین باتوں کا اضافہ محسوس کرتے۔
٭ پہلی بات:۔ آپؐ عبادت میں بہت زیادہ کوشش اور جستجو فرمایا کرتے تھے۔ حالاں کہ آپؐ کے عام دنوں کی عبادت بھی ایسی تھی کہ آپؐ کے قدم مبارک متورم ہوجایا کرتے تھے۔ رمضان میں یہ عبادت پہلے سے بھی زیادہ ہوجایا کرتی تھی۔
٭ دوسری بات:۔ آپؐ، اللہ رب العزت کے راستے میں خوب خرچ فرماتے تھے۔ اپنے ہاتھوں کو بہت کھول دیتے تھے۔ بہت کھلے دل کے ساتھ صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے۔
٭ تیسری بات:۔ آپؐ مناجات میں بہت ہی زیادہ گریہ وزاری فرمایا کرتے تھے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم بھی رمضان المبارک میں ان اعمال کا خصوصی اہتمام کریں۔ عبادت کے ذریعے اپنے جسم کو تھکائیں۔ ہمارے جسم دنیا کے کام کاج کے لیے روز تھکتے ہیں۔ زندگی میں کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ یہ اللہ کی عبادت کے لیے تھک جایا کریں۔ کوئی ایسا وقت آئے کہ ہماری آنکھیں نیند کو ترس جائیں اور ہم اپنے آپ کو سمجھائیں کہ اگر تم اللہ کی رضا کے لیے جاگو گے، تو قیامت کے دن اللہ کا دیدار نصیب ہوگا۔ یہ آنکھیں آج جاگیں گی، تو کل قبر کے اندر میٹھی نیند سوجائیں گی۔
موت کے بعد ہے بیدار دلوں کو آرام
نیند بھر کر وہی سویا جو کہ جاگا ہوگا
دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ تجارت کرتے ہیں، ان کے کاروباری سیزن آیا کرتے ہیں۔ جس شخص کا سیزن آجائے، وہ اپنی محنت بہت زیادہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح رمضان نیکیاں کمانے کا سیزن ہے جو لوگ اپنے گناہوں کو معاف کروانا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے یہ مہینہ ایک سیزن کی مانند ہے۔
انہیں چاہیے کہ جب وہ روزہ رکھیں، تو ان کا روزہ محض کھانے پینے سے رکنے تک محدود نہ ہو، بلکہ روزہ دار کی آنکھیں بھی روزہ دار ہوں، زبان بھی روزہ دار ہو، کان بھی روزہ دار ہو، شرم گاہ بھی روزہ دار ہو، دل و دماغ بھی روزہ دار ہوں۔
ایک حدیث میں ہے کہ روزہ انسان کے لیے ڈھال ہے جب تک کہ وہ اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ جس طرح ڈھال کے ذریعے انسان اپنی حفاظت کرتا ہے، اسی طرح روزہ شیطان سے حفاظت ہے۔
قارئین کرام! ماہِ رمضان میں لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، غیبت، جھوٹ، ناپ تول میں کمی، دھوکا، انسان کو تکلیف دینا وغیرہ سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ایک حدیث مبارک میں ہے کہ روزہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ روزہ میں انسان کو جو تکلیف پہنچے بھوک پیاس کی وجہ سے، تو اس پر صبر کرنا چاہیے۔ اس کو برداشت کرنا چاہیے۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم رمضان کا مہینہ شکوہ، شکایت کے ساتھ گزارتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ آج روزہ بہت لمبا تھا۔ آج گرمی بہت زیادہ تھی۔ آج روزہ نے مجھ پر بہت اثر کیا ۔ آج مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ اگر ان سب باتوں کو ہم برداشت کرلیں، تو اس پر بہت زیادہ ثواب ملے گا۔
ایک حدیث میں ہے کہ جس نے ایک روزہ دار کو ایک کھجور یا ایک گلاس لسی یا پانی دیا، تو اللہ اس شخص کو روزہ دار کی طرح اجر دے گا۔
اس طرح ایک حدیث میں ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ رمضان میں چار چیزوں کو کثرت کے ساتھ کیا کرو۔یعنی کلمہ طیبہ اور استغفار کا ذکر کثرت سے کرنا اور جنت کی دعا اور دوزخ سے پناہ مانگنا۔
قارئین کرام! چوں کہ قرآن مجید فرقان حمید کا نزول بھی اسی مہینہ میں ہوا ہے۔ لہٰذا رمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس حوالہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
………………………………………….
لفظونہ انتطامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔