خودرو تحریک

تحاریک اس طرح یک دم نہیں اُبھرتیں بلکہ اس کے پیچھے کئی محرومیاں، مظالم اور مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ایک طرف سرمایہ دار ’’سٹیٹس کو‘‘ کی پارٹیاں اور حکومت انہیں مجبوری کے تحت پالتی ہیں، دوسری طرف خود رو تحاریک سائنسی طور پر گھٹن زدہ ماحول سے آتش فشاں کے لاوے کی طرح نکلتی ہیں۔ اس لاوے کو پگھلتے ہوئے عشرے لگتے ہیں اور بعض اوقات اس کی رفتار دو گنی ہوتی ہے۔
قارئین، ریاست اس لیے بنتی ہے کہ اس میں ہر قسم استحصال کا خاتمہ ہوجائے۔ اوّل طور پر جان و مال کو تحفظ مل جائے۔ جہاں امن و امان ہو۔ دوسری طرف ریاست اس کے علاوہ صحت، تعلیم، چھت اور روزگار کا تحفظ دیتی ہے۔ صاف پانی، صاف ماحول کے بعد دوسرے حقوق جیسے دوہری سزاؤں سے نجات، ملزم کو فوری طور قانون کے مطابق عدالت میں پیش کرنا، نظریاتی اور مذہبی آزادی، زبان اور کلچر کا تحفظ، آزادیِ فکر اور آزادیِ اظہارِ رائے، معلومات تک رسائی تو بہرحال ثانی الذکر حقوق ہیں جو کہ ناپید ہیں۔ یہ حقوق اس وقت ملتے ہیں جب ایک فرد کو زندہ رہنے کی اجازت مل جائے۔ ماؤرائے عدالت قتلِ عام روزانہ کا معمول ہے۔ عدالت کو بروقت ملزمان کی پیشی میں تاخیر کا عمل ریاست کے قانون پر سوالیہ نشان ہے۔ ہزاروں لاپتا افراد عشروں سے غائب ہیں۔ یہ ایک مقولہ ہے کہ جب کسی فرد کے قتل کا سراغ نہ ملتا ہو، تو اس صورت ریاست ہی اس کا قاتل ٹھہرتی ہے۔
جب خودرو تحریک کو روکنے کے لیے بندھ باندھے جاتے ہیں یا کسی ایک جگہ اس کوزبردستی روکا جاتا ہے، تو اس صورت تحریک مزید تیزی اختیار کرتی جاتی ہے۔ یہ نئے روپ دھارتی ہے۔ مطالبات اور ترجیحات کی فہرست روز بروز بڑھتی رہتی ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ ریاست کے ساتھ طاقت آزمائی کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہیں رہتا۔ اس لیے جب زور آزمائی شروع ہوتی ہے، تو عوام ریاست سے متنفر ہونے لگتے ہیں۔ اس کی مثال بنگال کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ پھر ریاست کو عوام کو بتانا پڑتا ہے کہ ادارے عوام سے بالاتر نہیں ہیں۔ قانون سب کے لیے یکساں ہے۔ اپنے بنیادی حقوق مانگنا غداری کے زمرے میں نہیں آتا۔ کسی ادارے کا اصلاح کرنے والا غدار نہیں ہوتا ہے۔
لوگ اکثر پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی کا موازنہ کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اعصابی طور پر کمزور اور نسبتاً ناخواندہ تحریکِ طالبان کے حمایتی تھے، لیکن اس کے برخلاف پی ٹی ایم میں دانشور اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ کور کمانڈر پشاور نے منظور احمد پشتین کو اپنا بچہ کہا اور پی ٹی ایم کے مطالبات کو جائز قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں جرگے کے توسط سے معاملات حل کرنے کی نوید سنائی ہے۔ جرگے میں گورنر خیبر پختونخوا اور چیف منسٹر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چیف منسٹر نے اپنی طرف سے جاری شدہ ایک بیان میں کہا ہے کہ تمام مطالبات جائز ہیں اور اس پر گفت و شنید کرنے کے لیے میرے دروازے ہر وقت کھلے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بھی چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ ان مطالبات کو اٹھانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔

لوگ اکثر پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی کا موازنہ کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اعصابی طور پر کمزور اور نسبتاً ناخواندہ تحریکِ طالبان کے حمایتی تھے، لیکن اس کے برخلاف پی ٹی ایم میں دانشور اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ (Photo: newsclick.in)

ریاستی ادارے بشمول سیکورٹی ایجنسیز اس معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن اس میں وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ کیوں کہ اس عرصے میں حکومت کا متعین کردہ وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتی جرگے کے افراد اتنے ہیں کہ کسی ایک کے ساتھ بیٹھا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اداروں سے بات ممکن لگ رہی ہے۔ کیوں کہ پی ٹی ایم کے اراکین الزام لگاتے ہیں کہ اس کے ارکا ن کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور اس صورت میں جرگہ کی کامیابی کے امکانات کم سے کم ہیں۔ بقول منظور پشتین تیرہ مختلف جرگوں کے ممبران رابطے میں ہیں اور ہر ایک یہ کہتا ہے کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ملتے، تو ہم یہ سمجھ لیں گے کہ آپ جرگہ اور مطالبا ت حل کرنا نہیں چاہتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بہ یک وقت تمام جرگوں سے ملا جا سکے اور یہ بھی نا ممکن ہے کہ کسی اختیار کے بغیر ان سے ملا جائے ۔
تحریک نے خیبر پختونخوا سے نکل کر لاہور میں کامیاب جلسہ کیا۔ پھر سوات میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اب کراچی میں جلسہ کرنے جا رہی ہے۔یوں پورے پاکستان میں جلسے کرنے کا ارادہ ہے۔ اُس کے بعد وانا وزیر ستان اور آگے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان ہوچکا ہے۔ اس سارے عمل میں حکومتی اداروں کی بے حسی اور بے بسی حالات کے خراب ہونے کا اشارہ کر رہی ہے۔ عوام میں حکومت کے خلاف اشتعال بڑھتا جا رہا ہے۔ اب تو کھل کر سیکورٹی ایجنسیز کے خلاف بیانات آ رہے ہیں جو کہ عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث ہوں گے۔ پاکستان کے علاوہ بیرونی ممالک جیسے جرمنی، یورپ، امریکہ وغیرہ میں بھی تنظیم کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ رائے عامہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ میں مطالبات لے جانے کی باز گشت سنی جا رہی ہے۔
صبر کا ایک پیمانہ ہوتا ہے اور اب وہ لبریز ہوا چاہتا ہے۔ منظور احمد پشتین کاکمال یہ ہے کہ انہوں نے قوم پرست جماعتوں کے ڈومین اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر نبض شناسی کی ہے اور اس سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ اب اگر خدانخواستہ حکومت ٹال مٹول سے کام لیتی ہے، تو حالات خراب کرنے کی ذمہ داری حکومت کے سر آئے گی۔ اس لیے جتنا جلد ممکن ہے، اس قضیہ کو حل کرنا حکومت کے لیے نیک شگون تصور ہوگا اور وفاق پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین۔

………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔