1989ء میں ایک خاص سیاسی، قانونی اور عدالتی نظام کے پس منظر میں تحریکِ نفاذِ شریعت محمدی (ٹی این ایس ایم) کی بنیاد ڈالی گئی۔ تحریک کا نعرہ شرعی عدالتی نظام کا قیام اور اس میں شرعی قوانین کا نفاذ تھا۔ بہ ظاہر ٹی این ایس ایم کا پلیٹ فارم 1994ء میں سوات میں مسلح بغاوت کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور بعد میں ایک سانچے کے طور پر 2007ء تا 2009ء کے بحران نے بھی اس کی کوکھ سے جنم لیا۔
کئی ایک مقامی اور غیر مقامی اہلِ قلم و لکھاریوں کی تحریریں سوات کے 1994ء اور 2007ء تا 2009ء کے بحران کو طبقاتی جنگ کے طور پر پیش کرتی ہیں اور یا اسے ایسے انداز میں پیش کرتی ہیں، جو اسے طبقاتی جنگ کا رنگ دیتی ہیں۔ ایسے افراد (جنہوں نے سوات کے بحران کے عروج کے دنوں میں 2008ء اور 2009ء میں اس ضمن میں لکھا اور ٹی این ایس ایم اور فضل اللہ کے سوات طالبان کی تگ ودو کو مذکورہ بالا شکلوں میں پیش کیا) میں خادم حسین، سرتاج خان اور جین پرلیز و پیر زبیر شاہ شامل ہیں۔ ان کی اخباری تحریروں (خاص کر خادم حسین کا اس لیے کہ سرتاج خان اور جین پرلیز و پیر زبیر شاہ نے بھی آپ ہی کے حوالے دیے ہیں) اور بعض افراد کے بیانات اور ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کی پیروی میں بعض محققین اور مصنفین نے بھی اپنی تحریروں میں سوات کے بحران کو طبقاتی جنگ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور یا اسے طبقاتی کشمکش کا شاخسانہ قرار دیا ہے، جیسا کہ صحافی زاہد حسین، ڈاکٹر عاصم سجاد اختر، ڈاکٹر یونس صمد، ڈاکٹر رابرٹ کلولس، نینسی لینڈس فرن، سی کرسٹین فیئر اور شیرافضل خان بریکوٹی۔
مذکورہ بالا اور اس نقطہ نظر کے دوسرے افراد کے دعوؤں اور نقطۂ نظر سے درج ذیل سوالات جنم لیتے ہیں:
1:۔ کیا سوات میں طبقات یعنی طبقہ بالا (سرمایہ دار اور جاگیردار)، درمیانی طبقہ (بورژوا) اور مزدور و مزراع (پرولتاری) اس شکل میں موجود ہیں، جو کہ طبقاتی جنگ کے بنیادی اجزا ہیں؟
2:۔ کیا طبقاتی جنگ کبھی مذہب کے نام پر لڑی گئی ہے یا کبھی مذہبی راہ نماؤں نے طبقاتی جنگ کی قیادت کی ہے؟
3:۔ کیا صوفی محمد اور فضل اللہ نے کبھی طبقاتی تفریق اور طبقاتی جنگ کی بات کی ہے؟
4:۔ ٹی این ایس ایم اور سوات کے طالبان نے شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیوں کیا اور کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظریات کی پرچار کیوں نہیں کی؟
5:۔ اگر واقعی یہ طبقاتی جنگ تھی، تو پیر سمیع اللہ، رقاصہ شبانہ اور ان اجرتی قاتلوں، ڈاکوؤں، ہیرونچیوں اور ملاؤں وغیرہ جو کہ قتل کیے گئے، کا تعلق کون سے طبقے سے تھا؟
6:۔ غریب اور معاشرہ کے زیردست طبقہ، حتیٰ کہ بھکاری خواتین، میں سے کئی ایک مرد و خواتین کو کیوں کوڑے لگوائے گئے اور یا انہیں قتل کیا گیا؟
7:۔ سوشلسٹس اور کمیونسٹس کیوں اس میدان میں نہیں کودے، جب کہ ٹی این ایس ایم اور طالبان اس مقصد کے لیے تگ ودو کر رہے تھے، جس کی وہ وکالت کرتے ہیں اور جس کے لیے وہ تگ و دو کرتے ہیں؟ اور ان میں سے بعض نے طالبان کی مخالفت اور مزاحمت کیوں کی؟
8:۔ اگر واقعی یہ طبقاتی جنگ تھی، تو سوات قومی امن جرگہ اور گلوبل پیس کونسل جیسے فورمز نے اس کی مخالفت کیوں کی؟ کیا اس طرح انہوں نے پرولتاری، بے زمین اور غیر مراعات یافتہ طبقے کے خلاف خوانین و ملک کہلائے جانے والوں، طبقہ بالا اور مراعات یافتہ طبقے کی حمایت اور غریبوں اور پسے ہوئے لوگوں کی مخالفت نہیں کی؟
9:۔ کیا حکومت اور سکیورٹی فورسز نے طالبان کو شکست دے کر غیر مراعات یافتہ یا معاشرہ کے پسے ہوئے طبقے کے مقابلہ میں خوانین و ملک کہلائے جانے والوں اور مالدار یا مراعات یافتہ طبقے کے محافظ ہونے اور تحفظ کرنے کا کردار ادا نہیں کیا؟
شاید بعض لوگوں کے لیے یہ بات باعثِ حیرت ہو کہ 1980ء کی دہائی میں دیر سے تعلق رکھنے والے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والے افراد، جن کی وجہ سے ٹی این ایس ایم (تحریک نفاذِ شریعت محمدی) وجود میں آیا، کا تعلق عام عوام اور ملاؤں میں سے نہیں بلکہ معاشرہ کے بالادست طبقے اور سیاسی لوگوں سے تھا۔ اس طرح 1994ء کی شورش کے بعد سوات کے بالادست طبقے کے ایک جرگہ نے سوات میں شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا اور غیر مسلح ہونے کی تجویز کی مخالفت کی اور 1994ء ہی کے واقعات کے بعد کمشنر ملاکنڈ ڈویژن نے مراعات یافتہ طبقے کے افراد پر مشتمل ایک جرگہ نامزد کیا، جس کے اجلاسوں میں ان کے مطالبات میں شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ بھی شامل ہوتا۔ حتیٰ کہ 2007ء اور 2008ء میں سیکولر سیاسی، جماعتوں اور با اثر افراد کے کئی ایک جرگوں اور اجلاسوں میں بھی شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا۔ جب کہ سوات میں ریاستِ سوات دور میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا پہلا مطالبہ 1949ء میں مینگورہ سے تعلق رکھنے والے سراج الدین خان نے کیا تھا، جو کہ ایک خان گھرانے اور بااثر افراد میں سے تھا اور ریاست سوات کے خاتمے کے بعد کے دنوں میں شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ ’دانی گل‘ نے کیا تھا، جس کا تعلق اگر چہ طبقہ بالا سے نہیں تھا لیکن ملا بھی نہیں تھا اور ایک سیاسی کارکن تھا۔
1970ء کی دہائی میں چلنے والی کسان تحریک، جس کا گڑھ تحصیل مٹہ اور تحصیل بریکوٹ کے علاقے تھے، کے سر خیل بڑی حد تک گوجر تھے۔ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس کا کسی حد تک طبقاتی رنگ اور نعرہ تھا اور جس کی پشت بانی اور حمایت مزدور کسان پارٹی کر رہی تھی۔ اس تحریک کے حامی، خوانین و ملک کہلائے جانے والوں اور مالکان اراضی کے خلاف لڑے تھے۔ تاہم اس کسان تحریک کے حامی یا بہ حیثیت مجموعی گوجر، ٹی این ایس ایم اور سوات طالبان سے دور رہے اور ان کی صفوں میں شامل نہیں ہوئے بلکہ تحصیل مٹہ میں وہ پیر سمیع اللہ کی سربراہی میں طالبان کے خلاف ہی ڈٹ کر لڑے۔
ٹی این ایس ایم اور سوات طالبان زیادہ تر کبل، مٹہ، چارباغ اور خوازہ خیلہ تحصیلوں کے علاقوں میں سرگرم تھے۔ تاہم مؤخرالذکر دو علاقوں کو طالبان سے متعلق لکھنے اور بات کرنے والے افراد نے نظر انداز کیا ہے۔
ٹی این ایس ایم کے حامیوں میں شروع ہی سے نہ صرف عام عوام بلکہ معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ اور خوانین و ملک کہلائے جانے والے بڑے بڑے مالکانِ اراضی بھی شامل تھے۔ اسی طرح طالبان میں نہ صرف عام لوگ یا پرولتاری بلکہ معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے، جن میں خوانین و ملک کہلائے جانے والے اور بڑے بڑے مالکانِ اراضی بھی تھے اور دوسرے سر کردہ افراد بھی۔ لہٰذا نہ صرف ٹی این ایس ایم (تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی) اور طالبان مخالف صفوں میں معاشرے کے ہر طبقے کے لوگ شامل تھے بلکہ خود ان کی صفوں میں بھی شامل تھے۔
اگرچہ یہ تحاریک اور المیے طبقاتی جنگ یا طبقاتی کشمکش کا شاخسانہ نہ تھے، تاہم ان کا معاشی پہلو بہت اہم ہے۔ ریاستِ سوات کے اِدغام کے بعد سوات کے طبقۂ بالا و مراعات یافتہ طبقے کے ایک جرگہ نے کمشنر ملاکنڈ ڈویژن سے ایک ملاقات میں مطالبہ کیا کہ ملاکنڈ ڈویژن کو پس ماندہ علاقہ قرار دیا جائے۔ صوبائی حکومت کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ (پاٹا) ہونے کے ناتے انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی وغیرہ جیسے ٹیکس اس علاقے میں لاگو نہیں اور اس طرح ایک لحاظ سے یہ علاقہ ایک قسم کا ٹیکس فری علاقہ ہے۔ اس کی اس حیثیت کا پرولتاری یا غیر مراعات یافتہ طبقے اور یا بے زمین مزدور و مزارعین پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ وہ اس طرح کے بلا واسطہ ٹیکسوں کے زمرے میں نہیں آتے اور جو بالواسطہ ٹیکس ہیں، وہ ان کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں شامل ہونے کی وجہ سے اداکرنے ہی پڑتے ہیں۔ تاہم یہ ایک قسم کی ٹیکس فری حیثیت، بڑے مالکانِ اراضی، صنعت کاروں، مالکان ہوٹل اور تجارت پیشہ افراد وغیرہ کے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے کہ وہ تمام بلاواسطہ ٹیکسوں سے مستثنا ہیں جو کہ بصورتِ دیگر ان کو ادا کرنے پڑتے تھے۔ حتیٰ کہ تمام سرکاری ملازمین جن میں بیوروکریسی، عدلیہ، پولیس اور دوسرے محکمہ جات کے لوگ شامل ہیں، کو پاٹا میں نوکری یا خدمات انجام دینے کی صورت میں انکم ٹیکس سے چھوٹ حاصل تھی۔ دلچسپ کہ سپریم کورٹ کے ایک از خود نوٹس کے نتیجے میں 2010ء میں سرکاری ملازمین کو ان کی تنخواہوں پر انکم ٹیکس ادا کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔
چوں کہ ٹی این ایس ایم (تحریک نفاذِ شریعت محمدی) اور طالبان کا نعرہ یہ بھی تھا کہ اسلام میں مسلمانوں پر اس طرح کے ٹیکسوں کا نفاذ جائز نہیں، لہٰذا یہ طبقہ بالا اور بورژوا اور ساتھ ہی ساتھ پاٹا میں تعینات سرکاری افسر و عامل ہی تھے، جو تمام ریگولر نفاذ ملکی قوانین کے اس علاقے میں نفاذ کی وجہ سے مالی طور پر متاثر ہوتے۔ اس وجہ سے ایسے لوگوں نے نہ صرف اخلاقی حمایت دی بلکہ بڑے بڑے چندوں اور دوسری صورتوں میں مالی اور مادی امداد بھی دی۔
اگرچہ فضل اللہ کے نائبین محمد عالم اور شاہ دوران اپنے ایف ایم ریڈیو تقاریر میں خوانین کے مظالم اور چیرہ دستیوں کا ذکر کرتے اور خوانین کی دوسروں سے زبردستی چھینی ہوئی زمینوں کا اصل مالکوں کو واپسی کی بات بھی کرتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ خوانین سے ماضی کے مظالم کا بدلہ لیا جائے گا، لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ خوانین و ملک کہلائے جانے والوں کو ان کی ذاتی جائیداد اور اراضی سے محروم کردیا جائے گا۔ اور اگر چہ فضل اللہ کے غریب حامیوں کے ایک قلیل حصے کے اندر، ان کی کامیابی پہ زمینوں اور مکانات پر قبضہ کا تصور پایا جاتا تھا، اس لیے کہ وہ نہ صرف خوانین و ملک کہلائے جانے والوں بلکہ دوسرے مالکانِ اراضی کی زمینوں اور مکانات کے آپس میں بانٹنے کی بات بھی کرتے تھے، لیکن فضل اللہ اور اس کی تنظیم کا تنظیمی مؤقف اور پالیسی یہ نہیں تھی۔ فضل اللہ اور اس کے نائبین اس بات کو اپنے خلاف ایک پروپیگنڈا قرار دیتے تھے کہ ان کا مقصد خوانین کی زمینوں پر قبضہ کرنا ہے۔ انہوں نے اپنی ریڈیو تقاریر میں تنظیمی طور پر بار بار اس نقطۂ نظر کی تردید کی تھی کہ وہ خوانین اور مالکانِ اراضی کی زمینوں اور جائیداد پر قبضہ اور ان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کی زمینوں پر قابض ہونا نہیں چاہتے اور ان سے درخواست کی کہ وہ طالبان کی حمایت کریں۔ حتیٰ کہ انہوں نے ان خوانین و ملک کہلائے جانے والوں کی زمینیں اور جائیداد بھی تقسیم نہیں کی تھی، جو اُن کو مطلوب تھے۔ تاہم انہوں نے ان لوگوں سے جو ایسے افراد کی زمینیں بٹائیں یا نقد اجارہ پر کاشت کرتے اور یا ان کے باغات اجارہ پر لیے ہوئے تھے اور یا ان کی دکانوں اور تجارتی عمارات کے کرایہ دار تھے، سے کہا تھا کہ وہ ان فصلوں اور باغات وغیرہ میں ان مالکان کا حصہ اور رقم اور دکانوں اور تجارتی عمارات کے کرایے ان کے بجائے تحریک طالبان سوات کو ادا کیا کریں، جسے طالبان کے بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔ انہوں نے اپنا نقطۂ نظر اس حوالے سے واضح کیا تھا کہ وہ خوانین و ملکوں اور دوسرے کسی فرد کے بھی ان کی شان اور حیثیت کی وجہ سے مخالف نہیں اور یہ کہ وہ صرف ان لوگوں کے مخالف ہیں، جو اسلامی قونین کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ٹی این ایس ایم (تحریک نفاذ شریعت محمدی) اور طالبان دونوں کا نعرہ شریعت یا اسلامی قوانین کا نفاذ تھا، جو نہ صرف مالکانِ اراضی کی ذاتی ملکیت کے حق کو تسلیم کرنا ہے بلکہ اس کی ضمانت بھی دیتا ہے۔
سوات کے طالبان کے راہنماؤں نے اس کی بھی سراحت کی تھی کہ اسلامی نظام میں ایک خان کی دولت محفوظ رہتی ہے اور کوئی بھی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ تاہم اُسے بھی زنا، شراب اور دوسرے غیر اسلامی امور سے اجتناب کرنا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ جب اسلامی قوانین کا نفاذ ہوگا، تو اللہ کی قسم کہ ہم کسی خان اور ملک پر حملہ کفر سمجھتے ہیں۔ فروری 2009ء کے معاہدہ امن کے بعد 21 مارچ 2009ء کو فضل اللہ نے اپنی تقریر میں خود ہی بتایا تھا کہ یہ جنگ نہ زمین کی حدود پر تھی، نہ جائیداد پر اور نہ دولت ہی کے لیے۔ یہ خان اور ملک کے خلاف جنگ نہیں تھی۔ یہ جنگ اللہ تعالیٰ کے قانون کے لیے تھی۔ تاہم انہوں نے ان افراد کے لیے اپنی دشمنی چھپائی نہیں رکھی تھی، جو ان کے مخالف تھے اور طالبان مخالف فوجی کارروائی کی حمایت کرتے تھے۔ ایسے افراد کو نہ صرف نشانہ بنایا گیا بلکہ کھل کے ان کو خبردار بھی کیا گیا تھا اور دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
واضح رہے کہ محولہ بالا اہل قلم میں بعض کے دعوؤں اور مباحثوں کے بر خلاف 2008ء میں طالبان نے نہ تو خوانین و ملک کہلائے جانے والوں کے اراضی اور باغات کو مزارعین میں تقسیم کیا تھا اور نہ یک گونہ اصلاحاتِ اراضی نافذ کی تھیں۔ وہ چند صورتیں جن میں زمینوں کو تقسیم کیا گیا تھا، در حقیقت خوانین و ملک کہلائے جانے والوں اور دوسروں کی زمینوں کے مزارعین اور ان لوگوں میں تقسیم نہ تھی جو زمین کی ملکیت نہیں رکھتے تھے بلکہ متعلقہ دعوے دار مالکوں کے درمیان ان کے حصوں کے حساب سے تقسیم تھی اور یہ بھی ان صورتوں میں ہوا جب ایسی زمینوں کے متعلق مقدمات اور دعوے طالبان کے پاس فیصلہ کے لیے لائے گئے۔
1970ء کی دہائی میں چلنے والی کسان تحریک سے منسلک لوگوں کا بہ حیثیت مجموعی ٹی این ایس ایم (تحریک نفاذِ شریعت محمدی) اور طالبان سے دور رہنا اور بہت سارے بااثر افراد اور بڑے بڑے مالکانِ اراضی کی ٹی این ایس ایم (تحریک نفاذِ شریعت محمدی) اور طالبان میں شمولیت اور موجودگی اور ساتھ ساتھ ان کی خوانین و ملکوں کے متعلق اپنی پالیسی اور نقطۂ نظر کی تنظیمی سطح پر وضاحت کا ثبوت ہے کہ ٹی این ایس ایم (تحریک نفاذِ شریعت محمدی) اور فضل اللہ تحریک نہ تو مزارعین کے بڑے مالکانِ اراضی مخالف تحریک تھے اور نہ اراضی سے متعلق اصلاحات ان کے ایجنڈے میں شامل تھیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ جن لوگوں نے سوات کے بحران کو طبقاتی جدوجہد اور طبقاتی جنگ کے طور پر پیش کیا ہے، ان کی اکثریت اس بحران کے دنوں میں سوات میں تھی ہی نہیں اور یہ بھی کہ ان کی اکثریت نے نہ تو سوات کو دیکھا ہے اور نہ روزانہ کی بنیاد پر نشر ہونے والے طالبان راہنماؤں کی تقاریر ہی سنی ہیں۔
جو لوگ سوات کے بحران کو طبقاتی جنگ اور یا اسے طبقاتی کشمکش کا شاخسانہ قرار دیتے رہے ہیں، انہوں نے بیشتر اور بلا تخصیص ’’جاگیرداروں‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تاہم سوات میں ایسا کوئی بھی فرد نہیں جس پر لفظ ’’جاگیردار‘‘ کا اس کی اصل روح میں اطلاق ہوسکے۔ جاگیرداروں اور خوانین کی اصطلاحات اور جو اہمیت و کردار بعض اہل قلم نے سوات کے بحران کی نسبت سے انہیں دیا ہے، وہ سیاق و سباق میں نہیں اور زمینی حقیقت بھی ان کی پشت بانی نہیں کرتی۔
سوات کا بحران دراصل کئی ایک مقامی، ملکی اور بین الاقوامی عوامل کا پیدا کردہ تھا، جس میں اہم کردار خفیہ اداروں کا تھا۔ جو لوگ اسے طبقاتی جنگ یا طبقاتی کشمکش کا رنگ دیتے ہیں اور اسے اسی صورت میں پیش کرتے ہیں، ان کو چند خوانین و ملک کہلائے جانے والوں اور با اثر افراد کا قتل اور جلا وطنی اور ان کے بعض املاک کی تباہی نظر آتی ہے، جس کا ذرائع ابلاغ نے پروپیگنڈا کیا تھا، لیکن غربا، زیردست، غیر مراعات یافتہ اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کا قتل اور تباہی نہیں، جن کا کوئی پروپیگنڈا نہیں ہوا۔ جزوی اطلاعات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنا موضوعی اور غلط نتائج پر ہی منتج ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ سوات کا یہ بحران اگر چہ طبقاتی جنگ یا طبقاتی کشمکش کا شاخسانہ نہیں تھا، لیکن یہ اپنے جلو میں معاشرے میں اختیارات اور طاقت کی ہیئت میں مزید تغیر و تبدل اور شکست وریخت، اور علاقے کے سماجی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی میدانوں میں مختلف الجہت اور دور رس اثرات والی تبدیلیاں لے آیا ہے۔ (23ویں پاکستان ہسٹری کانفرنس، منعقدہ کراچی بتاریخ 12اور 13مارچ 2013ء کے موقع پر راقم کے انگریزی میں پیش کردہ مقالے کی اردو تلخیص)۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔