جب بھی دارالحکومت اسلام آباد میں درختوں، کھمبوں اور سٹریٹ لائٹس پر دیدہ زیب پینا فلیکس (بینرز) آویزاں کر دیے جاتے ہیں، جن پر ادیبوں اور شاعروں کی تصاویر نمایاں ہوتی ہیں، تو سمجھ لیجیے کہ شہر میں کتب میلہ ہونے جا رہا ہے۔ اس روایت کو کم و بیش نو سال ہونے کو ہیں۔ اس بار ’’نویں قومی کتب میلہ‘‘ کا افتتاح صدرِ پاکستان ممنون حسین نے کیا۔ میلہ میں کتابوں کی رونمائی، کتاب خوانی، نظم، غزل، افسانہ اور ڈرامہ کی تقریبات شامل تھیں۔ اس لیے کثیر تعداد میں لوگ بھی موجود تھے۔ اگر چہ یہ کتب میلہ تھا لیکن زیادہ تر لوگوں کی خواہش مشہور شخصیات کے ساتھ وقت گزارنا تھی۔ ان کے ساتھ سیلفیاں اور آٹوگراف لینے کے لیے بھاگ دوڑ جاری تھی۔ یہ ایک نادر موقع تھا۔ ایک ہی پلیٹ فارم پر اتنے ادیبوں اور شاعروں کو جمع کرنا واقعی ایک سنہری موقع تھا۔
اس تقریب کا اہتمام ہر سال نیشنل بُک فاؤنڈیشن (این بی پی) کرتا آیا ہے اور ایسی تقاریب کے اہتمام میں اس کو ید طولیٰ حاصل ہے۔ کتب میلہ کے انتظامات اور قلمکاروں کی میزبانی کے سخت کام کو ادارہ خوش اسلوبی سے انجام دیتا چلا آیا ہے۔ مشیرِ وزیراعظم برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ عرفان صدیقی چاروں دن میلہ میں موجود رہے۔ بہت سے قلمکاروں کو میں نے تقریباًـہر نشست میں موجود دیکھا، لیکن ایسے احباب کی بھی کمی تھی جو سرکاری خرچ اور وسائل سے فائدہ اٹھا رہے تھے اور بمشکل چند نشستوں میں کچھ گھڑیاں گزار کر بعد میں اسلام آباد کی سیر میں مشغول تھے۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے ایسی تقاریب کا اہتمام اپنی مثال آپ ہے، لیکن اس ادارے کا بنیادی کام فیڈرل بورڈز کے زیرِ انتظام تمام تعلیمی اداروں کے لیے درسی کتب کی اشاعت اور فراہمی ہے۔ چوں کہ اپریل کا مہینہ نئے تعلیمی سال کا ہوتا ہے، جن درسی کتب کو نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کرنا ہوتا ہے، وہ کسی بھی دکان پر دستیاب نہیں ہوتیں یا اس حوالہ سے ادارہ کو مربوط حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ایسی تقاریب کا اہتمام واقعی لائق تحسین ہے لیکن اپنے فرائض کو حل کرنے میں مفاہمت سے کام نہیں لینا چاہیے۔ وفاقی تعلیمی اداروں کی کتب کی فراہمی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ وہیں سے نئے قلمکار جنم لیتے ہیں۔ نونہالانِ وطن کو کتب کی فراہمی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا چاہیے۔ ورنہ دیگر خدمات ’’ہندو ستڑے خدائے ناراضہ‘‘ کے مصداق ہونگی۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔