جنوبی وزیرستان کی تحصیل سروکئی میں ایک سکول ماسٹر کے ہاں پیدا ہونے والے منظور پشتین کی پتنگ چڑھی ہوئی ہے۔ منظور نے اپنا بچپن وزیرستان میں گزارا اور ابتدائی تعلیم بھی وہاں سے حاصل کی۔ دو ہزار نو عیسوی میں آپریشن راہِ نجات کی وجہ سے پشتین کے خاندان سمیت کئی خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر نقلِ مکانی کرنا پڑی۔ آپریشن ختم ہوا، ہزاروں لوگوں کی طرح پشتین بھی اپنے گاؤں واپس آیا۔ واپس آکر اس نے توقعات کے برعکس ایک ہنستے بستے گاؤں کی جگہ ملبے کاڈھیر پایا اور یہاں سے ’’کہانی‘‘ کا آغاز ہوا۔
محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے منظور پشتین کو اپنے کھنڈر نما گاؤں نے ایک ’’تحریک‘‘ شروع کرنے کی تحریک ڈالی۔ وہ تعلیم یافتہ تھا۔ دردِ دل رکھنے والا تھا۔ اس لیے اس نے وقت ضائع کیے بغیر’’محسود تحفظ موومنٹ‘‘ کی بنیاد ڈال دی۔ رفتہ رفتہ مقبولیت حاصل کرتے ہوئے بالآخر تحریک کا نام ’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ (پی ٹی ایم) پڑ گیا۔ پی ٹی ایم کے بنیادی مطالبات نہایت سادہ اور خلوص پر مبنی تھے۔ ان مطالبات کا نچوڑ صرف اور صرف وزیرستان کے لوگوں کا تحفظ تھا۔دن گزرتے گئے اور پھر اس کہانی میں ایک دلچسپ موڑ آگیا۔ ہواں یوں کہ کراچی میں محسود قبیلے سے ہی تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کو بدنامِ زمانہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ماورائے عدالت ایک جعلی مقابلے میں قتل کروا دیا۔ نقیب اللہ محسود، ایک خوبرو جوان جسے دیکھ کر ہی بندہ گواہی دے کہ نہیں یہ دہشت گرد نہیں ہوسکتا، اور اگر تھا بھی، تو اسے عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہئے تھا۔ الغرض، پولیس مقابلے میں قتل کی یہ خبر لوگوں کو ہضم نہیں ہوئی اورلوگوں کے تحفظات نے سوشل میڈیائی مہم کی صورت میں ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ ایسے موقعہ پر اپنے لوگوں کا درد سینے میں رکھنے والے منظور پشتین سے بھی رہا نہ گیا۔ پہلے سے محسوس کیے جانے والے آپریشن کے نقصان، چیک پوسٹوں کی بے جا سختی اور جگہ جگہ موجود مائنز سے لوگوں کی ہلاکتوں کا درد اور اوپر سے اچانک محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نتیجتاً26 جنوری 2018ء کو ڈیرہ اسماعیل خان سے شروع ہونے والی پی ٹی ایم کی احتجاجی مارچ پشاور اور پھر اسلام آباد پہنچ گئی۔ یکم فروری کو اسلام آباد پہنچنے پر تحریک نے ایک جرگہ کیا۔ جرگہ میں ایک عام پشتون دکان دار نقیب اللہ محسود کے قتل کی مذمت کی گئی اور ساتھ ہی اپنے چند دیگر مطالبات کے ساتھ نقیب للہ کے قاتلوں کو قانون کی گرفت میں لانے کامطالبہ کر ڈالا۔ جرگہ تقریباً دس دن تک اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنہ دیے بیٹھا رہا۔ آخر میں حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے، مطالبات کی منظوری کا یقین دلایا اور اس یقین دہانی کے بعد دھرنے کے شرکا اپنے گھروں کولوٹ گئے۔

اگر آج منظور پشتین واقعی کسی بیرونی قوت کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، تو اس کے جائز مطالبات کو مان کر اس خطرناک سازش کاخاتمہ کردیں۔

مطالبات کی منظوری کے لیے ہونے والے معاہدے کا خلاصہ کچھ یوں تھا:
1:۔ نقیب اللہ محسود قوم کا بیٹا ہے۔ راؤ انوار کو جلد سے جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔
2:۔ جنوبی وزیرستان میں مائنز کو تلف کرنے کے عمل میں تیزی لائی جائے گی۔ مائنز دھماکوں میں جاں بحق اور زخمیوں کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے گا۔
3:۔ اہلِ علاقہ(جنوبی وزیرستان) میں شہید نقیب اللہ محسود کے نام سے ’’انٹرمیڈیٹ کالج‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
4:۔ دھرنا شرکا کے دیگر جائز مطالبات مانے جائیں گے۔
دھرنا شرکا کہنے کو تو واپس چلے گئے، لیکن اس شرط پر کہ اگر ان سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی، تو یہ ایک ماہ بعد واپس اسلام آباد کا رخ کیا جائے گا۔
قارئین، ان مطالبات کا بغور جائزہ لیں اور خود بتائیں کہ مذکورہ معاہدے پر کتنا فیصد عمل کیا گیا؟ منظور پشتین اور اس کے ساتھیوں نے پہلے ہی واضح کیا تھا کہ ان کا اصل مقصد ان کے مطالبات کا پورا ہونا ہے۔ مطالبات پورے کیے جاتے، وعدہ خلافی نہ کی جاتی اورمعاہدہ پر کما حقہ عمل کیا جاتا، تو پی ٹی ایم نامی تحریک آج ہر جگہ نظر نہ آتی۔
اب ہر جگہ یہ سوال سر اٹھاتا دکھائی دیتا ہے کہ منظور پشتین اور اس کی تحریک کیا چاہتی ہے؟ جہاں تک میں نے پڑھا ہے، دیکھا ہے اور پرکھا ہے، تو منظور اور اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ ہمارے گھروں سے زندہ انسانوں کو اٹھا کر لاپتا کیا گیا ہے۔ لاپتا افراد کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے، جو گنہگار ٹھہرا اسے سزا دی جائے جب کہ باقی لوگوں کو اپنے گھر جانے دیا جائے۔ اُن کے اہل و عیال اُن کی واپسی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
منظور پشتین کا دوسرا مطالبہ ہے کہ ہمارے علاقوں میں جگہ جگہ نصب شدہ مائنز پھٹنے سے لوگ مر رہے ہیں۔ یہ مائنز ہٹائے جائیں۔ مائنز دہشت گردوں کے لیے بچھائے جاتے ہیں نہ کہ عوام کو نشانہ بنانے کے لیے۔ عوامی آبادی میں مائنز کی موجودگی اور اس سے ہونے والے انسانی جانوں کے نقصان کے خاتمے کا مطالبہ ارضِ پاک کے دشمن کریں گے یا دوست؟
اکیلے منظور نہیں بلکہ ہر پشتون یہی کہتا ہے کہ چیک پوسٹوں پر ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے، یہ سلسلہ بند کیا جائے۔ اب تو یہاں ایک نئی بحث جنم لے چکی ہے کہ چیک پوسٹ تو دہشت گردی روکنے کا بڑا ذریعہ ہے، انہیں نہ ہٹایا جائے مگر کم از کم ان پر پولیس تو تعینات کی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے لوگوں کے تحفظات کو با آسانی دور کیا جاسکتا ہے۔ میں نہ مانوں والی رٹ کسی کے بھی حق میں نہیں، نہ قوم کے حق میں اور نہ سیکورٹی کے نام پر مصروفِ عمل ایجنسیوں کے حق میں۔
آج منظور پشتین کو سنے بغیر ہی اس کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ منظور اسلام آباد گیا، تو ایک گملا تک نہ ٹوٹا۔ اُلٹا دھرنے ختم ہونے پر پورے پنڈال کی صفائی کی گئی۔ اب تک پی ٹی ایم کی جانب سے علیحدگی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور نہ علاحدگی پسند تحریکوں کی طرح پرچم کو نذرِ آتش ہی کیا گیا ہے۔ اگر منظور پشتین کے بیانات کو لے کر کوئی تحفظات کا اظہار کررہا ہے، تو ایک لمحے کے لیے اپنی آرام دہ زندگی میں آنکھیں بند کرکے خود کو کسی قبائلی فرد کی پوزیشن پر رکھ لیں، آپ کا اپنا لاپتا ہے، جرم ثابت کرنے والے ادارے تک آپ کی یا آپ کے دیگر عزیزوں کی رسائی نہیں ہے، آپ کو کوئی پتا نہیں کہ اس کا گناہ کیا ہے؟ آپ کا گھر بار پہلے ہی اجڑ چکا ہے، مائنز سے آپ کے اپنے لوگ مررہے ہیں، چیک پوسٹس پر آپ کو الگ سے خشک رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آپ کے ساتھ وعدے وعید کیے جاتے ہیں اور بعد میں انہیں فراموش کر دیا جاتا ہے، ایسے میں آپ جانا چاہیں، تو کہاں جائیں گے؟ کیا ردعمل کے طور پر آپ اپنے تحفظات کے اظہار کے لیے احتجاج بھی نہیں کریں گے؟ آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہ کر اپنے حقوق نہیں مانگیں گے؟
مجھے یاد ہے جب ہمیں بڑے لڑکوں کی طرف سے گراؤنڈ میں کھیلنے کی اجازت نہیں ملتی تھی اور ہم گراؤنڈ سے باہر ان کے کھیل کا مزا کِرکِرا کرنے کی خاطر کسی کونے میں کرکٹ کھیلنا شروع کردیتے تھے۔ پھر ان کو کھیل کالطف آتا اور نہ ہمیں۔ ہم اپنی توانائیاں بے جا سرف کر دیتے تھے، لیکن کبھی مل بیٹھ کر بات کرنے کا خیال کسی کو نہیں آیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ احتجاج کے مقابلے میں احتجاج مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مل بیٹھ کر بات کریں گے، تو ہی فائدہ ہوگا۔’’لوہا لوہے کو کاٹتا ہے ‘‘ والی پالیسی ہر جگہ کارگر نہیں ہوتی۔ معاہدہ کرکے انہیں گھر بھیجا گیا تھا، معاہدہ کی خلاف ورزی کی گئی ہے، تو ہی یہ لوگ دوبارہ سڑکوں پر آئے ہیں۔ اگر معاہدہ کی پاس داری کی جاتی، تو ان کے پاس واپس سڑکوں پر آنے کا کوئی جواز باقی رہتا اور نہ ان کا ساتھ دینے لوگ میسر ہوتے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، باہمی مشاورت سے مل بیٹھ کر مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے۔ رہے منظور پشتین کو متنازعہ سمجھنے یا ثابت کرنے والے لوگ، تو ان سے دست بستہ عرض ہے کہ آپ اُس کے مطالبات کا ہر زاویے سے جائزہ لیں اور بتائیں کہ ان میں کون سا ایسا مطالبہ ہے جو غیر آئینی اور غیر قانونی ہے؟ اگر آج منظور پشتین واقعی کسی بیرونی قوت کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، تو اس کے جائز مطالبات کو مان کر اس خطرناک سازش کاخاتمہ کردیں۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔

……………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔