جو تحریر آپ کے زیرِ مطالعہ ہے۔ ذرا اس کی ظاہری حالت پر غور کریں۔ کیڑے مکوڑوں کی طرح بکرے حروف مل کر لفظ بنے ہیں اور یہی لفظ جب آپس میں جُڑتے ہیں، تو جملہ بنتا ہے جو مکمل طریقے سے بات کی وضاحت کرتا ہے۔ اس جملے پر اگر آپ انگلی پھیریں، تو آپ کو کچھ اُبھرا ہوا دکھائی نہیں دے گا اور نہ محسوس ہوگا۔ بالکل ایسے لگے گا کہ ایک سپاٹ کاغذ ہے خالی اور ہموار مگر یہی الفاظ ہیں جو اپنے اندر ایک بہت بڑی قوت رکھتے ہیں۔ اُس ایک بیج سے بھی زیادہ طاقتور جن کے ننھے سے وجود میں سیکڑوں درخت مستور ہوتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا معجزہ اور سب سے بڑی کتاب بھی تو انھی الفاظ کا مجموعہ ہے اور اُس رب کے الفاظ ہیں جس نے اس کاینات کی تخلیق ’’کُن‘‘ سے کی۔
مرحوم جناب اشفاق احمد صاحب نے بھی اللہ کی باتوں یا ذکر کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’ہم سب ایک مریض کے گرد جمع تھے اور ہمارے ایک نیک بزرگ مریض کا علاج ذکر کے الفاظ سے کررہے تھے۔ جس میں مریض کو بھی اس بات کی ہدایت دی جارہی تھی کہ اذکار جاری رکھیں۔ اسی اثناء میں ڈاکٹر صاحب بھی آگئے۔ شاید کسی نے اُنھیں بھی فون کھڑکادیا ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے جب بزرگ صاحب کو ذکر و اذکار اور روحانی علاج میں ڈوبا دیکھا، تو اُن کی بھنویں تن گئیں۔ ’’کیا ہورہا ہے یہاں؟‘‘ ڈاکٹر صاحب چلائے۔ ’’مریض کی جان پر بنی ہوئی ہے اور آپ جھاڑ پھونک سے کام لے رہے ہیں۔ یہ ان باتوں کا زمانہ نہیں ایک طرف ہوجایئے۔ یہ آپ کا کام نہیں۔‘‘ باباجی نے فرمایا ’’ڈاکٹر صاحب آپ بہت بے وقوف ہیں۔‘‘ اس بات کا سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب طیش میں آگئے۔ غصے سے اُن کے چہرے کی رنگت متغیر ہوگئی۔ ہاتھ کانپنے لگے۔ وہ اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے آگے بڑھے۔ باباجی مسکراتے ہوئے بولے: ’’یہ آپ کی باتوں کا جواب تھا۔ جب ایک لفظ بے وقوف کہنے پر آپ جیسے ’’پڑھے لکھے‘‘ شخص کی حالت میں اتنی تبدیلی آسکتی ہے، تو کیا اللہ کے ذکر سے ایک مریض کی طاقتیں بہ حال نہیں ہوسکتیں؟‘‘ اس بات کا سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب سوچ میں پڑ گئے۔
بات ہو رہی تھی لفظوں کی قوت کی۔ جب طارق جمیل صاحب کے منھ سے یہی نظر نہ آنے والے الفاظ جھڑ رہے ہوں، تو دل کے بند دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ بے اختیار آنکھوں کی دہلیز سے آشک باہر اُمنڈ پڑنے کو بے تاب ہوتے ہیں۔ اس لیے الفاظ کا چناؤ اور اظہار بہت احتیاط سے کیجیے۔ یہ بناؤ اور بگاڑ، تعمیر اور تخریب، دونوں طرح کی صلاحیت اور قوت رکھتے ہیں۔ حضورؐ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر فرمایا تھا: ’’اگر اسے قابو میں رکھا جائے، تو میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ا س لیے زبان کے استعمال میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ آپ کی تھوڑی سی بے احتیاطی ایک بہت بڑے فساد کی بنیاد بن سکتی ہے۔ طلاق کا ایک یا تین لفظ برسوں کی محبت بھری زندگی اور تعلق کو نیست و نابود کرسکتا ہے۔ دوستی کی مضبوط دیوار ایک یا چند لفظوں کے تیروں سے زمین بوس ہوسکتی ہے۔ یہی لفظوں کے تیر گہرے دوستوں میں دراڑ ڈال سکتے ہیں اور دوستی کی دیوار میں یہ دراڑ پھر پاٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ تلوار کا زخم تو بھرسکتا ہے مگر الفاظ کا گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ اس لیے بات کرنے سے پہلے سو بار سوچیے۔ اُس زیرک پٹواری کی طرح یا درزی کی طرح جو خوب ناپ کر نشان لگاتا ہے اور پھر کاٹتا ہے۔ اس لیے بھی کہ الفاظ گولی کی طرح ہوتے ہیں۔
اس لیے بھائیو! لفظوں کی گولیاں داغنے سے پہلے ذہن کا چیمبر صاف کرلینا چاہیے۔ زندگی لفظوں کے کھیل سے ہی عبارت ہے۔ اس کھیل میں وہی کھلاڑی جیتتا ہے جس کے پاس لفظوں کے ہتھیار زیادہ تیز ہوں۔ الطاف بھائی سات سمندر پار سے انھی لفظوں کے کھیل سے اپنی پارٹی چلا رہے ہیں۔
سیاست دان تو پھر لفظوں کے استعمال سے خوب واقف ہوتے ہیں۔ بہ قول باباجی کے ’’میری بڑی بیٹی نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اباجی! وہ فلاں باجی آج آئی ہوئی تھیں۔ بڑی بحث کررہی تھیں۔ میں نے بھی وہ سنائی، وہ سنائی کہ اُس کی بولتی بند کردی۔‘‘
باباجی نے کہا: ’’یہ کون سا کارنامہ مار لیا تم نے……؟ تم باجی سے تو بحث میں جیت گئی، مگر اپنی دوست کو ہار گئی۔ بیٹی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ کیا تم وہ بات بھول گئی اپنے سب سے بڑے مرشدؐ کی جس نے فرمایا ہے: ’’وہ پکا مسلمان نہیں جس کی زبان سے دوسرے مسلمان کو تکلیف پہنچے۔‘‘
بس دوستو! شیریں زبانی سب سے بڑی نعمت ہے۔
زبان کی نرمی کی وجہ سے دانت جیسے حریف دشمن اپنی سختی کے باوجود اس کے سامنے صف باندھے کھڑے رہتے ہیں۔
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔