پشاور اپنے معمول کے ہوش رُبا اور شرانگیز شور و غل میں مگن ہے مگر مین سٹریم میڈیا نے ابھی تک پی ٹی ایم کے حوالے سے مکمل بے نیازی اختیار کی ہوئی ہے۔ اکثرسیاسی قائدین بھی کھل کر اس تحریک کے حوالے سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ عام لوگوں کا ردعمل بھی ملاجلا ہی ہے۔ اس تحریک کے بارے میں ابہام، بے یقینی اور شکوک و شبہات بھی ہیں اور امید، یقین اور اعتماد بھی۔ اس کے بیانیے میں کسی حد تک حقیقت بھی ہے اور مبالغہ و افسانہ بھی۔ مطالبات کے چناؤ میں احتیاط بھی ہے لیکن طریقِ کار میں قدرے بے احتیاطی اورنادانستگی بھی۔ تقریروں میں گلہ شکوہ بھی ہے لیکن لب ولہجہ دھمکی آمیز بھی ہے۔
اس تحریک کے حوالے سے ابھی تک ’’سوشلستان‘‘ میں تین قسم کے طبقے سامنے آئے ہیں۔ ایک وہ طبقہ ہے جو اس کی پُرزور وکالت کر رہا ہے۔دوسرا وہ جو اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ تیسرا وہ جو اب تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکا ہے یا جسے اس حوالے سے کوئی علم یا دلچسپی ہی نہیں۔جو اس کی وکالت کررہے ہیں وہ سوویت یونین کے خلاف جنگ سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور راؤ انوار جیسے قصائیوں کے ہاتھوں پختونوں کی تباہی، گمشدگی اور توہین پر آزردۂ خاطر ہیں۔ جو اس کے مخالف ہیں وہ اسے دشمن کی چال سمجھ رہے ہیں یااسے ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف ایک منظم سازش کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دونوں طرف سے اس تحریک کے دفاع اور مخالفت میں باتیں ہو رہی ہیں۔
ایک خدشہ، یہ بات تو طے ہے کہ اگر ریاست نے اس تحریک کو جنم دینے والے عوامل اور وجوہات کو ایڈریس کرتے ہوئے آئین و قانون سے مطابقت رکھنے والے مطالبات پرعمل نہ کیا، تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ پاکستان دشمن قوتیں اسے اپنے مقاصد کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ استعمال نہ کریں۔
تاریخی تناظر، اس میں شک نہیں کہ پچھلے لگ بھگ نصف صدی سے پختونوں کی سرزمین بین الاقوامی اور علاقائی قوتوں کے مابین پراکسی وار کا اکھاڑا بنا ہوا ہے، لیکن یہ تاریخ اور جغرافیہ کا ایک ایسا مشترکہ جبر ہے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اس پُرآشوب تاریخ میں پختونوں کی ہمہ گیر تباہی بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، لیکن اس نقصان کی ساری ذمہ داری پاکستانی ریاست یا اس کی فوج پر ڈالنا قطعی طور پر خلافِ حقیقت اور غلط ہے۔ ’’فریب ناتمام‘‘ کے مصنف سمیت کئی مصنفین اور مؤرخین مثلاً احمد رشید، سٹیو کول وغیرہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ خطے میں جاری پراکسی جنگ میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ علاقائی ریاستوں اور خود افغانستان کا ہاتھ رہا ہے۔ اس صورت حال میں فطری طورپر پاکستان کے لیے غیر فعال رہنا پہلے ممکن تھا نہ اب ہے۔
ایک یاد دہانی، لیکن پی ٹی ایم کے حمایتی یہ بھی یاد رکھیں کہ جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ اب تک دہشت گردی میں مرنے والوں کی اکثریت پختونوں کی ہے، وہاں مارنے والوں کی بھی ایک غالب اکثریت پختونوں ہی کی ہے۔ افغانستان کے اندر خلق اور پرچم کے لوگ ایک دوسرے کو مارتے رہے، اور دونوں پختون تھے۔ دونوں کے پیچھے سوویت یونین تھا۔ پھر سوویت سپورٹ سے کابل حکومت ’’اشرار‘‘ کو مارتی رہی جب کہ مغربی اور اسلامی ممالک کی حمایت یافتہ ’’افغان مجاہدین‘‘ کابل میں ’’کٹھ پتلی کمیونسٹوں‘‘ کو مارتے تھے۔ مارنے اور مرنے والوں کی غالب اکثریت پختونوں کی تھی۔ ایک فریق کو سویت یونین اور دوسرے کو لبرل اور اسلامی ممالک سپورٹ کرتے رہے۔ پھر سوویت کے جانے کے بعدہمسایہ ممالک کی پراکسی شروع ہوئی اور کابل تباہ و برباد ہوگیا۔ پورے افغانستان میں وارلارڈز نے بربریت کی داستانیں رقم کیں۔ مختلف گروہوں کو مختلف ملک سپورٹ کرتے رہے اور عموماً پختون ہی کٹتے مرتے رہے۔ پھر گیارہ ستمبر کے حملے ہوئے اور دنیا کیا سے کیا ہوگئی۔ افغانستان ایک اور ہولناک جنگ کے شعلوں میں لپٹ گیا۔ چند سالوں میں عالمی اور علاقائی ریاستوں کے مابین پھر وہی پراکسی وار چل پڑی۔ مارنے والے پختون، مرنے والے پختون۔ پھر آگ کے شعلے افغانستان سے نکل کر پاکستان میں داخل ہوگئے۔ یہاں بھی عالمی اور علاقائی گلیڈئیٹرز کے مابین وہی پراکسی وار۔ مارنے والے پختون، مرنے والے پختون۔
یاد دلاؤں کہ منظورپشتون کو معلوم ہے کہ نور محمد ترکئی اور جنرل عبدالاقدر ڈگروال جنہوں نے پختون قوم پرست سردار داؤد کو قتل کیا تھا، پختون تھے۔ حفیظ اللہ امین جو نورمحمد ترکئی کے قتل کا ذمہ دار تھا، پختون تھا۔ ببرک کارمل جس کے ہاتھ پر حفیظ اللہ امین کا خون تھا، پختون تھا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ جو سوویت کی مدد سے ’’افغان مجاہدین‘‘ کو قتل کرتا رہا، پختون تھا۔ ملا عمر جس کے ساتھیوں نے پختون قوم پرست لیڈر ڈاکٹر نجیب اللہ کو نہایت بے دردی سے قتل کیا تھا، پختون تھا۔ حکمت یاراور استاد سیاف جن کے ہاتھ پر نجانے کتنے پختونوں کا خون ہوگا، پختون ہیں۔ نیک محمد، عبداللہ محسود، بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود جنہوں نے پختونوں کے اغوا اور قتل کی نئی تاریخ رقم کی، پختون تھے۔ ملا فضل اللہ جنہوں نے آرمی پبلک سکول میں ننھے پختون بچوں کو قتل کیا، پختون ہے۔ قندوز مدرسہ پر بم برسا کر معصوم پختون بچوں کو مارنے والی حکومت کے سربراہ ڈاکٹر اشرف غنی، پختون ہے۔ اور کیا کیا نام گنواؤں پشتین صاحب! کوئی بھی صاحب عقل و شعور ان سب کو پاکستان اور پاک آرمی کو کھاتے میں نہیں ڈال سکتا۔ جی ہاں! قبائیلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں ریاست دشمن عناصر کے خلاف پاکستانی مسلح افواج کی کارروائیوں کے دوران میں غلطیاں ہوئی ہونگیں، خود میں اور میرے خاندان پرطالبان دہشت گردوں کی وجہ سے باربار قیامت ٹوٹی۔ میرے بھائی خودکش حملے میں شدید زخمی ہوئے اور ایک سال کی طویل علاج کے باوجود مستقلاً نیم اپاہج ہوگئے۔ میرے خاندان کو ملٹری آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ خود مجھے طالبان نے اغوا کیا اورکئی دن تک اعصاب شکن قید میں رکھا۔ میرے ایک کزن کو شہید کیا گیا جب کہ ایک اور کزن ہمیشہ کے لیے پیراپیجیک ہوکر زندہ لاش بن چکا ہے۔ مجھے بھی بسا اوقات چیک پوسٹوں پر تعینات فوجی اہلکاروں کے سخت رویے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مجھے بھی سیاست میں فوج کے کرادر سے اختلاف ہے۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ یہ پختونوں کے زخموں پر نمک پاشی کی بجائے مرہم پٹی کا وقت ہے، جو لوگ دہشت گردی میں ملوث نہیں، مگر ابھی تک ’’غائب‘‘ ہیں، انہیں فی الفور رہاکیا جائے اور جن کے خلاف ثبوت ہوں، انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ مشرف کا ٹرائل کیا جائے۔ راؤ انوار جیسے کرائے کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ کیا جائے اور ضروری چیک پوسٹوں پر عملے کو مہذب طریقے سے لوگوں کے ساتھ پیش آنے کی تربیت دی جائے۔ فاٹا اور کے پی کو باہم ضم کیا جائے اور دونوں کی ترقی کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جائے لیکن منظور پشتین! کسی بھی ایسی حرکت کرنے سے گریزکیجیے، جس سے پاکستان کی سالمیت اور استحکام پر آنچ آتی ہو۔ اپنے آئینی اور قانونی مطالبات کو آئین اور قانون ہی کے اندر حل کرنے کی کوشش کیجیے۔ دشمن کی چالوں سے ہوشیار اوردور رہیں۔ پاکستان اور ا فواجِ پاکستان کے بارے میں الفاظ احتیاط سے چُنئے۔ پوری قوم اور دنیا کی نظریں تمہاری ایک ایک ادا پرہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دانستہ یا نادانستہ تمہاری یہ تحریک پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں ’’ہائی جیک‘‘ ہوجائے۔
دیکھنا، یہ قافلہ کہیں بھٹک نہ جائے!
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔