بات سیلون کی ہو رہی ہے اور ہم برس رہے ہیں اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے ’’بوسیدہ حکمرانوں‘‘ پر۔ کیا کریں دماغ ہے کہ آگ بگولا ہونے کو ہے۔ دل ہے کہ بم اور بس پھٹنے کو ہے۔ جسم ہے کہ بارودی ’’واسکٹ‘‘ جو تہس نہس ہونا چاہتا ہے۔ جہاں سیکڑوں معصوم بچوں اور خواتین (مردوں کو تو چھوڑیں، کہ وہ تو ہیں ہی دہشت گردی کا ایندھن) کو یک مشت گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور بنتے خوب صورت انگریزی زبان میں ایکشن پلانز ہیں، جس میں سب سے زیادہ اہم کام آپس میں مل بیٹھنے، تاریخ سے سبق نہیں سیکھنے اور پھر کھا پینے کا ’’مینو‘‘ ہوتا ہے۔ پھر فوراً سے پیش تر شہید بچوں کے چہلم کو رنگین بنانے کے لیے میڈیا کو بڑے اہتمام سے باسی شادی کے ’’ایپی سوڈ‘‘ کی طرف ڈائی ورٹ کیا جاتا ہے۔ سیکڑوں نعشوں کو ہفتوں ہفتوں احتجاجاً سڑکوں پر رکھ کر انصاف مانگا جاتا ہے اور بنتی کمیٹیاں ہیں، جس میں سب سے میٹھا کام کھاؤ کھلاؤ پلاؤ اور ’’بول ہوا اُس پار زمانے کیسے ہیں‘‘ ہوتا ہے۔ گم شدہ افراد کی تلاش میں سال ہا سال کے عذاب میں مبتلا مائیں اور بیٹیاں روتی مرتی خون کے آنسو بہاتی پارلیمنٹ ہاؤس اور عدلیہ کے عالی مرتبہ عمارتوں کے سامنے احتجاج کرتی ہیں۔ اور ہوتے کابینہ کے اجلاس ہیں جن میں سب سے زیادہ اہم کام، حضرتِ وزیر اعظم ’’قاید اعظم ثانی‘‘ کا دیدار مبارک، ان کے عوامی دبدبے کا فیڈ بیک دینا، پھر کھایا پیا ہضم کرنے کے لیے وہاں سے پھسلنا ہوتا ہے۔ گذشتہ سال اسمبلی میں ایک ممبر حضور نے دوسرے ممبر حضور کے گالوں پر ایک گرما گرم تھپڑ رسید کیا تھا، کیا آپ کو علم ہے کہ اس نے یہ کیوں کیا تھا؟ کیوں کہ ’’تھپڑ رسیدہ بے چارہ‘‘ ’’تھپڑ دلائے لاچارے‘‘ کو وزیر اعظم تک پہنچنے، اس کو سیلوٹ کرنے اور دعائیں لینے میں رکاؤٹ بنا تھا۔ اب تو ممبران کے باوقار چہروں کو تھپڑوں سے بچانے کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر ’’ماسک‘‘ خریدنا پڑیں گے، بے گناہ لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کے نہ ختم ہونے والے سلسلے ہیں اور نظام کا ’’بدشکل و ضعیف منھ‘‘ چپ چاپ گویا حالت نزع میں رہتا ہے۔ جیسے نظام نہیں کوئی گلی سڑی، بدبودار لاش ہو، جس کو ’’نظام‘‘ کہہ کر ہم لفظ ’’نظام‘‘ کی ناجائز توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جنازوں پر خود کش حملے ہوتے ہیں اور بنتی موٹر ویز، ایکسپریس ویز اور انڈر پاسز اور فلائی اوورز ہیں۔ کیا ان روڈز اور فلائی اوورز پر خواص، عوام کے جنازے پڑھنے جائیں گے؟ طاقت کے’’ منبعے‘‘ ہر واقعہ کے بعد بس پلان ہی بناتے ہیں اور داخلِ دفتر کرتے ہیں۔ تاکہ اگلی باری لینے والے لوٹ ماروں کے کام آئیں۔ پھر ایک اور واقعہ کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ تب تک مذمت کا کڑویلا گھونٹ پی کر مذمت ہی کے غمگین لیکن مدھر موسیقی سنتے سنتے وقتی طور پر ’’رحلت‘‘ فرما جاتے ہیں۔ مجال ہے کہ کسی میں اتنی سی بھی اخلاقی جرأت ہو کہ وہ اور کچھ نہ کرے، بس گناہ کے اس کھیل سے خود کو علاحدہ کرے۔ کرسی سے اٹھے اور جا کر گھر بیٹھ جائے، تو ایسے حال میں ایک زندہ آدمی آگ بگولا نہ ہو اور جارحانہ نہ ہو تو کیا ہو؟
دوسری طرف فرانس میں ایک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ پندرہ سولہ لوگ مرتے ہیں، تو نظامِ زندگی مفلوج ہو جاتا ہے۔ پوری حکومتی مشینری اس طرف ڈائی ورٹ ہو جاتی ہے۔ صدر اور دیگر ذمہ دارِ خاص جائے وقوعہ پر فوراً پہنچ جاتے ہیں ( پریس کانفرنسوں اور ٹی وی اسٹیشنوں میں نہیں)۔ لوگوں کا بحرِ بیکراں ایک جگہ جمع ہو کر کاروبارِ زندگی بند کرکے، حکومت پر پریشر ڈالتا ہے۔ پولیس تب تک سانس لینا بھول جاتی ہے جب تک واقعہ کی تہہ تک پہنچ نہیں پاتی۔ وہاں کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں دہشت گردوں کو دکھانے کے لیے ملین مارچ ہوتا ہے، جس کو حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔ مارچ میں لوگوں کا ازدحام ہوتا ہے۔ ہر طرف صرف سر ہی سر نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے نشریاتی اداروے اس مارچ کو لائیو کوریج دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس میں فرانس کے صدر، جرمنی کی انجیلینا مِرکر، یوکے کے ڈیوڈ کیمرون، اسپین کی ماریانو راجے اور دنیا کے سیکڑوں اہم حکومتی شخصیات نے بھی شرکت کی تھی۔ اس کے بر عکس اگر یہاں دہشت کے خلاف کوئی معمولی احتجاج کرنا چاہے، تو حکومتی مشینری فوراً الرٹ ہو جاتی ہے اور اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ تاکہ عوام اکھٹے ہی نہ ہوں۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے، تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا، تو جم جائے گا
تو واپس چلتے ہیں سیلون کی طرف…… دہشت گردی یا اندرونی خلفشار ماضی میں دونوں ممالک کی کلیدی پہچان رہا ہے۔ دونوں ملکوں میں اس کی فنڈنگ کے ذرائع تو ایک جیسے رہے ہیں، یعنی بیرونی امداد، ڈرگ منی، اغوا برائے تاوان اور جرائم پیشہ عناصر کا سپورٹ۔ اندرونی جنگ کی وجہ سے سری لنکا کے دو کروڑ آبادی میں لگ بھگ پندرہ لاکھ لوگ انٹرنلی ڈسپلیسڈ ہوئے، یعنی آٹھ فی صد، جو کہ آبادی کے لحاظ سے بڑی تعداد ہے۔ وہاں دہشت گردوں کا ایک آدھ گروپ تھا، جب کہ پاکستان میں تو ہر بدلتے دن کے ساتھ کئی کئی تنظیمیں بنتی ہیں، بگڑتی ہیں، ’’بگڑوائی‘‘ جاتی ہیں اور بنوائی جاتی ہیں۔ وہ ایک عرصہ سے اس کینسر کے خلاف لڑتے رہے، مرتے رہے، مگر ڈٹے رہے۔ آخرکار دو ہزار پانچ میں محترمی ماہندہ راجا کا بطورِ صدر انتخاب ہوا۔ ان کی عظیم لیڈر شپ میں اس قہر سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ ایک قابلِ عمل اسٹریٹجی بنائی گئی اور ان کی رہنمائی میں محض تین سالوں میں تیس سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ اندرونی خلفشار کے خاتمہ کے بعد آج کا سری لنکا پُرامن ہے۔ ثابت ہوا کہ وہاں جمہوریت کی جڑیں کتنی پکی ہو چکی ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں، وہ ہماری طرح نام نہاد حکمرانی کے نام نہاد شان و شوکت کے بھوکے تھوڑی ہیں۔ وہاں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا سفر تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ اب یہ ملک ایک بین الاقوامی سیاحتی مرکز بن گیاہے جو مزید پھل پھول رہا ہے۔ مارچ دو ہزار چودہ میں ہم وہاں تھے، تو ان دنوں ایک اندازے کے مطابق سوا لاکھ ٹوورسٹ کولمبو اور آس پاس کے علاقوں پر ٹڈی دل کی طرح حملہ زن تھے۔ ہوٹلوں، بازاروں، ٹرانسپورٹ، پارکوں، مذہبی مقامات اور انٹرٹینمنٹ اسپاٹس میں تل دھرنے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔ فارن انوسٹمنٹ آ رہی ہے۔ کولمبو کا تو یہ حال ہے کہ جیسے پورا شہر دوبارہ تعمیر کے عمل سے گزر رہا ہے۔ بڑے بڑے ہوٹل، مارکیٹ اور پلازے بن رہے ہیں، جس سڑک، گلی اور گھر سے گزر ہو، وہاں تعمیراتی کام زور و شور سے ہو رہا ہے۔ وہاں بھی ابتدائی سالوں (انیس سو اٹھاون) میں سرکاری زبان کی پالیسی پر ہماری طرح اختلافات شروع ہوئیں جو سنہالی اور تامل گروہوں کے بیچ جنگ کی شروعات کا سبب بنی۔ جب کہ قومی زبان پر اختلاف کے ایشو نے چلتے چلتے بیس اکیس برس میں پاکستان کا ایک ’’بازو‘‘ ڈکار لیا۔
عمومی طور پر یہاں کے لوگ سیدھے سادھے اور زندہ دل ہیں۔’’ایوبون‘‘ اور ’’واناکم‘‘ تو سب کا تکیہ کلام ہے۔ یعنی ’’لانگ لیو‘‘ یا ہیلو۔ بزرگوں کا احترام اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں۔ فائن آرٹس، میوزک، ڈانس، پرفارمنگ آرٹس، اسپورٹس اور فیسٹیولز میں ان کی گہری دل چسپی اور شرکت، زندگی کا حصہ ہے۔ عمومی ہفتہ وار چھٹیوں کے علاوہ سال بھر میں جتنی قومی چھٹیاں مختلف تقریبات کے لیے یہاں ہوتی ہیں، شاید کسی اور ملک میں ہوں، یعنی لگ بھگ ایک مہینہ۔ ہم مساجد، چرچ، گرو دواروں، مندروں،غرض جہاں بھی گئے لوگوں میں عزت و احترام اور دوستانہ جذبات کا سمندر موجزن پایا۔ ’’ان کی سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘ کہ ہم جیسے پاکستانیوں کے ساتھ بھی محبت و عقیدت کے جذبات رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک مندر میں ٹوورسٹ کے ہجوم میں اندر جاتے ہوئے ایک آدمی نے بڑے پیار سے ہمیں روکا۔ بہت عاجزانہ انداز میں اپنے ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ ساتھ ایک ہال میں ہونے والی شادی کی تقریب میں ما بہ دولت کو لے جایا گیا۔ شادی میں آئے ہوئے مہمانوں سے ملوایا گیا۔ کئی فوٹو سیشن ہوئے۔ گفٹ ملے۔ ان کی ’’ملنگانہ خواہش‘‘ پر سبزیوں کا سوپ چکھ کر کھانے کی شروعات کا اعلان کیا ۔
جب دولہا دلہن ہمارے دائیں بائیں اور دیگر کڑاکے دار میک اپ زدہ کُڑیوں نے اپنے آس پاس کھڑے ہو کر تصویریں بنانی شروع کیں تو دل اندر ہی اندر کڑھنے لگا کہ ہم نے اپنی خانہ آبادی میں اتنی جلدی کیوں کی؟ کر ہی لی، تو اتنے تنگ دل کیوں ہیں؟ کہ کسی اور پر مرتے نہیں؟
وسعتِ عشق میں تنگ دلی کا عالم تو دیکھیے
ایک کو چاہنا، فقط اُسی کو چاہنا، پھر کچھ نہ چاہنا
(جاری ہے)
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔