پشتو ڈراموں اور ٹیلی فلموں کا المیہ

کسی قوم کی زبان، ادب اور کلچر سے اس قوم کی تشخیص اور انفرادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پشتون قوم دنیا کی قدیم ترین قوم ہے اور زبان و ادب، تاریخ اور کلچر کے قابلِ فخر سرمایہ سے مالا مال ہے۔ اگر پشتون اپنی زبان و ادب اور کلچر کو ذرائع ابلاغ کے طور پر صحیح معنوں میں دنیا کے سامنے پیش کرے، تو دنیا یقینا اس قوم کی قابل فخر روایات اور تاریخ سے آگاہ ہوجائے گی۔ پہلے زمانہ میں کلچر کو عموماً پرنٹ میڈیا یا اسٹیج و مجالس کے ذریعے پیش کیا جاتا تھا۔ پھر الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا، تو سنیما ہالوں میں فلموں کا رواج شروع ہوا اور اسی طرح فلم بھی ادب، کلچر اور ابلاغ کا ذریعہ بن گیا۔ اس سلسلہ میں پشتو ادب اور کلچر بھی نئی راہوں پر گامزن ہوئے اور پھر 1970ء میں پشتو زبان میں فلموں کا آغاز ہوا۔ اگرچہ پشتون معاشرہ میں اداکاروں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور یہاں اداکار کو عموماً ’’ڈم‘‘ اور ’’میراثی‘‘ کہا جاتا ہے لیکن یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ’’فلم‘‘ معاشرہ، فلم بینوں اور خصوصاً نوجوان نسل کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ چوں کہ غیرت، بہادری، جرأت، حیا، عزت، دین داری اور حب الوطنی پشتون روایات، ادب اور کلچر کا حصہ ہیں، لہٰذا ہماری یادداشت کے مطابق اولین دور کے پشتو فلموں میں پردۂ اسکرین پر ان باتوں کو دکھایا جاتا تھا جن سے فلم بینوں کے ذہنوں پر مثبت اور صحت مندانہ اثر پڑتا۔ ابتدائی دور کے ان فلموں میں ’’یوسف خان شیر بانو‘‘، ’’آدم خان درخانئی‘‘، ’’درۂ خیبر‘‘، ’’ٹوپک زما قانون‘‘ اور ’’دَ پختون تورہ‘‘ وغیرہ جیسی فلمیں شامل تھیں، لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پشتو فلمیں بھی اپنے ڈگر سے ہٹتی چلی گئیں۔ ان میں ایسی فلمیں بھی باکس آفس پر آگئیں جنھیں ایک حساس پشتون کا ضمیر کبھی گوارا نہیں کرے گا اور نہ یہ کسی غیور پشتون مصنف کا کام ہوسکتا ہے۔ یہ فلمیں دراصل پشتون جیسی غیرت مند قوم کی سبکی اور بدنامی کا باعث بنیں جو دراصل پشتون دشمن اداروں اور لالچی لکھاریوں کی سازشیں تھیں۔

ایسی فلمیں بھی باکس آفس پر آگئیں جنھیں ایک حساس پشتون کا ضمیر کبھی گوارا نہیں کرے گا.

بدقسمتی سے ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا بھٹا ہی بیٹھ گیا جس کی وجہ سے کافی ادارکار، تکنیک کار اور مصنفین بے کار ہوگئے، تو پشتو فلمیں بھی اس کی زد میں آئیں۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور پی ٹی وی پشاور سے بہترین ڈرامے پیش ہوتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ نجی چینلوں سے بھی ڈرامے اور ٹیلی فلمیں پیش ہونے لگیں لیکن کچھ عرصہ بعد ان ٹیلی فلموں اور ڈراموں کا حلیہ ایسا بگاڑا گیا کہ الامان و الحفیظ۔ آج پشتو ڈراموں اور خصوصاً ٹیلی فلمیں دیکھ کر ایک حساس پشتون کو اس سے گھن آتی ہے۔ ان ٹیلی فلموں کے مناظر کیا ہیں، دیکھیں تو ان سے نوجوان نسل میں طوایف بازی، ڈم بازی، شراب نوشی، بد معاشی اور کلاشن کوف کلچر جیسی قباحتیں پھیل رہی ہیں۔ ان عناصر نے پشتون کلچر کے خلاف ایسی سازشیں شروع کر رکھی ہیں جس سے نئی نسل کا بیڑا غرق ہونے جا رہا ہے۔ فحاشی اور عریانی کا وہ راستہ اپنایا گیا ہے جو پشتون کلچر اور روایات کے لیے زہرِ قاتل ہے بلکہ یہ پشتونوں اور ان کی قابل فخر روایات کے خلاف سازش ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، تو دنیا میں لوگ پشتونوں سے نفرت کریں گے لہٰذا ان کا راستہ روکنا ہوگا۔ ورنہ یہ ٹیلی فلمیں اور ڈرامے آئندہ نسلوں کی تباہی کا ذریعہ بنتی رہیں گی۔
حال ہی میں صوبائی حکومت نے فحش اور بے حیا کلچر اور فلموں اور ٹیلی فلموں کو سنسر کرنے کا عندیہ دیا ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلہ میں ایسی پالیسی عمل میں لائی جائے کہ اس ’’میٹھے زہر‘‘ کا خاتمہ ہوجائے۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔