ہم جب کھانا کھا رہے تھے، تو نینسی مجھے بار بار دیکھتی اور بے ساختہ مسکرا تی، جس سے اس کے لال گالوں میں گڑھے بن جاتے۔ جب کہ اوپر سے لٹکتے ہوئے قمقمے کی پیلی روشنی اس کی آنکھوں کو ایسا روشن کرتی جیسے فاختہ کی چمکتی آنکھیں۔ہم نے کھانا کھا یا اور باہر نکلے، تو برقی ریل میں بیٹھ گئے اور ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے۔ نینسی چوں کہ جاپان مختصر وقت کے لیے آئی تھی، اس لیے پرسوں ہی اس کی واپسی تھی۔ صبح اس نے ٹوکیو واپس جانا تھا جب کہ میں ایک دو دن مزید ہیروشیما میں گزارنا چاہتا تھا۔ صبح دس بجے نینسی اور میں ہیروشیما کے ٹرین سٹیشن گئے۔ تھوڑی دیر باتیں کیں۔ اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور مجھے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ جب اس کے ٹرین کا وقت ہوگیا، تو نینسی مجھے گلے ملی اور چلی گئی۔ سیڑھیاں چڑھتے وقت اس نے مڑ کر دیکھا، ہاتھ ہلایا اور غائب ہوگئی۔ نینسی کے جانے کے بعد میں ہیروشیما میں تنہا سا ہوگیا اور مجھے یو ں محسوس ہوا کہ جیسے صدیوں کا ساتھ چھوٹا ہو۔ میں واپس ہوٹل آیا اور ’’اوکو نوشیما جزیرہ‘‘ جو خرگوشوں کے جزیرے کے نام سے مشہور ہے، جانے کی تیاری کی۔ اس لیے میں واپس ٹرین سٹیشن آیا اورمتعلقہ ریل گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ریل گاڑی جب ہیروشیما سے باہر ہوئی، تو ایک طرف سر سبز پہاڑی سلسلہ اور دوسری طرف نیلا سمندر۔ یہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا راستہ تھا۔ کیوں کہ ریل گاڑی تقریباً ہر سٹاپ پر رکتی، چند مقامی لوگ اترتے اور چند ریل گاڑی میں چڑھتے۔ ان میں زیادہ تعداد سکول کے بچوں اور بچیوں کی ہوتی جن میں اکثر میری طرف دیکھتے اور ایک دوسرے کے کانوں میں کچھ کہتے بھی، جب کہ بعض بچے تو سیٹ پر بیٹھ کر کتاب پڑھتے اور اکثر اونگھنے پر اکتفا کرتے۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد ٹرین رُکی تو یہ آخری سٹاپ تھا۔ یہاں سے مجھے ایک دوسری ٹرین جو ’’ہیرو‘‘ نامی جگہ جا رہی تھی، پر چڑھنا پڑا جسے خرگوشوں کے جزیرے کے بالمقابل پورٹ ’’تادانومی‘‘ سے گزرنا تھا۔ آخرِکار میں ’’تادا نومی‘‘ سٹیشن پر اُترا اور وہاں سے پورٹ جو کہ دس منٹ کے فاصلے پر تھا پیدل گیا۔ جب پورٹ پہنچا، تو میں نے سمندری جہاز یعنی فیری کا دو طرفہ ٹکٹ خرید ا اور انتظار گاہ میں بیٹھ گیا، جہاں زیادہ تر جاپانی موجود تھے جب کہ چند ایک باہر کے ممالک سے بھی تھے۔ ان میں دو جوان خواتین بھی تھیں جو ہر کسی سے فیری کے آنے کا وقت پوچھتیں۔ ان میں ایک میرے قریب بھی آئی اور مجھ سے بھی فیری کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انہیں وقت بتایا اور ان کے ملک کے بارے میں پوچھا، تو پتا چلا کہ ان کا تعلق ارجنٹینا سے تھا۔ تھوڑے ہی دیر میں فیری آئی اور ہم اس میں سوار ہوئے۔
ارجنٹینا کی دونوں دوشیزائیں ایک دوسری کی تصویر یں بناتے بناتے تھکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ سمندر کے اس سفر میں دونوں میرے ساتھ دوستانہ ماحول میں گپ شپ بھی لگاتیں، انہیں پاکستان کے بارے میں کافی معلومات تھیں۔ وہ اس بات پر پریشان بھی تھیں کہ پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ان میں ایک کا نام البرٹینا اور دوسری کا نام لوسیا تھا۔ البرٹینا انگلش روانی سے بولتی جب کہ لوسیا کو انگریزی بولنا کم آتا تھا۔ یہ دونوں سہیلیاں اکیلی جاپان آئی تھیں اور یہاں سے بہت زیادہ متاثر تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد ہم خرگوشوں کے جزیرے پر پہنچے، تو یہاں مقامی لوگوں اور سیاحوں کی رونق لگی تھی۔ ہر طرف خرگوش ہی خرگوش نظر آ رہے تھے اور ان لوگوں یا سیاحوں کی طرف دوڑتے تھے جو ان کو کھانے کی کوئی چیز دیتے۔ یہ میرے لیے ایک عجیب منظر تھا۔ کیوں کہ اتنے سارے خرگوش میں نے پہلے ایک ساتھ کبھی نہیں دیکھے تھے۔
ہم تینوں نے جب اتنے سارے پیارے جانور دیکھے، تو ہم جلدی سے ان کی طرف چلے دیے اور وہاں پہنچنے کی دیر تھی کہ کئی خرگوش ہماری طرف بھی دوڑنے لگے جس پر پہلے تو ارجنٹینا سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں گھبرا گئیں مگر جب انہوں نے دیکھا کہ پیارے خرگوش ان سے محبت سے پیش آ رہے ہیں، تو وہ مطمئن ہوئیں۔ ہم نے ٹکٹ گھر کے ساتھ خرگوشوں کے لیے خوراک اٹھائی تھی، اس لیے وہ ان کو کھلانے لگے۔ یہاں میں نے ایک بات نوٹ کی کہ زیادہ تر خرگوش ان دو حسین دوشیزاؤں کے پاس ہی جا رہے تھے اور میرے پاس چند ہی آتے تھے۔ میں نے اس موقع پر سوچا کہ حسن و جمال اور جنس کی کشش صرف انسانوں میں نہیں بلکہ یہ معصوم جانور بھی سمجھتے ہیں۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ البرٹینا زمین پر بیٹھ گئی اور خرگوش اس کے اردگر د ایسے جمع ہوئے جیسے کسی پھول کے گرد بھنورے یا شمع کے گرد پتنگ جمع ہوتے ہیں۔ یہ دونوں لڑکیاں جوان اور دلکش تھیں اور خرگوشوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اونچی آواز سے ہنستی تھیں جو ساتھ والی پہاڑ سے گونج کی شکل میں ٹکرا کر پورے جزیرے میں پھیل جاتی تھی۔ ان دو حسیناؤں کو ہنستے مسکراتے دیکھتے ہوئے مَیں آگے بڑھا اور جزیرے کا جائزہ لینے لگا۔
یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جسے یہاں کی مقامی حکومت نے سیاحت کے لیے چند سال پہلے کھولا ہے۔ یہاں پیدل چلنے کے لیے ٹریک ، کیمپنگ سائٹس اور پکنک کے لیے جگہیں بنائی گئی ہیں۔ یہ جزیرہ کسی زمانے میں جاپان ’’فوجی مقاصد‘‘ کے لیے استعمال کرتا تھا۔ یہاں پر دوسری جنگ عظیم کے دوران میں زہریلی گیس بنتی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ جزیرہ کافی عرصہ بند رہا، تاہم سال1988 ء میں اسے عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اب یہاں مقامی لوگوں کے علاوہ بڑی تعداد میں غیر مقامی سیاح بھی آتے ہیں جو اپنی پکنک منانے کے ساتھ ساتھ خرگوشوں کے ساتھ کھیلتے ہیں، ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔
میں بھی اس جزیرے میں گھومتے وقت قدم قدم پر یہ سوچ رہا تھا کہ ہیروشیما بھی عجیب دنیا ہے جسے لوگ صرف اور صرف ایٹم بم کی وجہ سے جانتے ہیں، تاہم یہاں تو دیکھنے کے لیے عجیب عجیب نظارے ہیں۔ یہ دنیا میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں کے انسان اتنے مہذب ہیں کہ نازک مزاج جانور بھی ان کے ساتھ رہتے ہوئے کچھ خوف محسوس نہیں کرتے بلکہ یہ جانور انسانوں کے ساتھ ساتھ ہنسی، خوشی اور پیار و محبت سے رہتے ہیں۔
یہاں فطرت اور انسان کے درمیان کتنی مطابقت ہے۔ یہ مجھے جاپان کے ہیروشیما شہر میں رہ کر پتا چلا۔ (جاری ہے)
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔