23 مارچ، جب برصغیر کی جد و جہد آزادی کے ہیرو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا
23 مارچ کو بھگت سنگھ جنہیں برصغیر کی جد و جہد آزادی کا ہیرو مانا جاتا ہے، کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ وکی پیڈیا کے مطابق بھگت سنگھ 1907ء کو ضلع لائل پور کے موضع بنگہ میں پیدا ہوئے۔ آپ سوشلسٹ انقلاب کے حامی تھے۔ طبقات سے پاک برابری کی سطح پر قائم ہندوستانی معاشرہ چاہتے تھے۔ کاما گاٹا جہاز والے اجیت سنگھ ان کے چچا تھے۔ جلیانوالہ باغ قتلِ عام اور عدم تعاون کی تحریک کے خونیں واقعات سے اثر قبول کیا۔ 1921ء میں اسکول چھوڑ دی اور نیشنل کالج میں تعلیم شروع کی۔ 1927ء میں لاہور میں دسہرہ بم کیس کے سلسلے میں گرفتار ہوئے اور شاہی قلعہ لاہور میں رکھے گئے۔ ضمانت پر رہائی کے بعد نوجوان بھارت سبھا بنائی اور پھر انقلاب پسندوں میں شامل ہوگئے۔ دہلی میں عین اس وقت، جب مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا، انھوں نے اور ’’بے کے دت‘‘ نے اسمبلی ہال میں دھماکا پیدا کرنے والا بم پھینکا۔ دونوں گرفتار کرلیے گئے اور عدالت نے عمر قید کی سزا دی۔
1928ء میں سائمن کمیشن کی آمد پر لاہور ریلوے اسٹیشن پر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں لالہ لاجپت رائے زخمی ہو گئے۔ اس وقت لاہور کے سینئر سپرٹینڈنٹ پولیس مسٹر سکاٹ تھے ۔ انقلاب پسندوں نے ان کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن ایک دن پچھلے پہر جب مسٹر سانڈرس اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ پولیس لاہور اپنے دفتر سے موٹر سائیکل پر دفتر سے نکلے، تو راج گرو اور بھگت سنگھ وغیرہ نے ان کو گولی مارکر ہلاک کر دیا۔ حوالدار جین نے سنگھ کا تعاقب کیا۔ انہوں نے اس کو بھی گولی مار دی اور ڈی اے وی کالج ہاسٹل میں کپڑے بدل کر منتشر ہو گئے۔ آخر خان بہادر شیخ عبد العزیز نے کشمیر بلڈنگ لاہور سے ایک رات تمام انقلاب پسندوں کو گرفتار کر لیا۔ لاہور کے سینٹرل جیل کے کمرۂ عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ بھگت سنگھ اور دت اس سے قبل اسمبلی بم کیس میں سزا پا چکے تھے۔ مقدمہ تین سال تک چلتا رہا۔ حکومت کی طرف سے خان صاحب قلندر علی خان اور ملزمان کی طرف سے لالہ امرد اس سینئر وکیل تھے۔ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو سزائے موت کا حکم دیا گیا اور 23 مارچ 1931ء کو ان کو پھانسی دے دی گئی۔ فیروز پور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے ، ان کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔ بعد میں یہاں ان کی یادگار قائم کی گئی۔