پختو ادب میں جس چیز کو ہم ’’متل‘‘ کہتے ہیں، اس کے لئے اردو ادب میں کہاوت، ضرب المثل، مثل، قول، مقولہ اور بچن جیسے الفاظ مستعمل ہیں۔ بیشتر پختون اپنی عام بول چال میں ’’متل‘‘ کے لئے لفظ ’’محاورہ‘‘ استعمال کرتے ہیں جو کہ بالکل ایک الگ چیز ہے۔ اس حوالہ سے حجرہ کی کسی اور نشست میں تفصیلاً بحث کی جائے گی۔
پختوکے’’ متل‘‘ یا اردو کی ’’کہاوت‘‘ کے بارے میں قبلہ ڈاکٹر سلطان روم صاحب اپنی کتاب ’’متلونہ‘‘ کے صفحہ چھے پر رقمطراز ہیں: ’’کہاوت کسی خاص واقعہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ اچانک بھی بنتی ہے۔ کہاوتیں پرانی بھی چلتی آ رہی ہیں اور نئی بھی بنتی اور پیدا ہوتی ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کہاوتیں اگر چہ چھوٹے چھوٹے جملے ہوتی ہیں، لیکن وزنی اور بامعنی ہوتی ہیں۔ یہ انسانی زندگی کے ہر رُخ سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہر کہاوت کی اپنی الگ تاریخ اور پس منظر ہوتا ہے لیکن یہ دوسری خاص باتوں اور واقعات کی مناسبت سے برجستہ کہی جاتی ہے اور اس سے بولنے والے کا مطلب کہی ہوئی بات کے سیاق و سباق میں آسانی کے ساتھ لیا جاسکتا ہے۔‘‘
قارئین کرام! اپنی نوعیت کے منفرد ادارہ ’’شعیب سنز پبلشرز اور بک سیلرز‘‘ جسے پروفیسر سبحانی جوہرؔ سوات کا ’’ٹی ہاؤس‘‘ مانتے ہیں، میں گذشتہ دنوں ایک کتاب ’’دَ متلونو قیصے، تیر پہ ھیر باقی روزگار‘‘ ہاتھ لگی۔ یہ محمد انور لشکریؔ کی تصنیف شدہ ہے جسے زیب آرٹ پبلشرز محلہ جنگی پشاور نے چھاپا ہے۔ کتاب کی ورق گردانی شروع کی، تو پتا ہی نہ چلا کہ آدھے گھنٹے میں اسے آدھی گھول کے پی بھی چکا ہوں۔ یوں تو کتاب کی کئی کہاوتیں ایسی ہیں جو ہماری عام بول چال کا حصہ ہیں۔ اس لئے سوچا کہ کیوں نہ موقعہ سے فائدہ اٹھا کر حجرہ کی آج کی نشست میں چند کو مع پس منظر قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا جائے۔
٭ ’’خرے تہ گورہ او پہ صحرا شپے تہ گورہ۔‘‘
محمد انور لشکری اپنی کتاب ’’د متلونو قیصے‘‘ کے صفحہ نمبر اُناسی پر اس مثل کے حوالہ سے لکھتے ہیں: ’’کہتے ہیں کہ ایک کسان نے ڈھیر سارے مویشی پال رکھے تھے، جن میں اُس کے ساتھ ایک گدھی بھی تھی۔ ایک دن گرمی کی دوپہر کو اس نے مویشیوں کو چارا ڈالااور خود ایک پیڑ کے گھنے سائے میں گھوڑے بیچ کر سوگیا۔ اسی اثنا میں گدھی رسّی توڑ کر راستہ ناپنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد کسان کی جب آنکھ کھلی، تو گدھی کو اپنی جگہ سے غائب پایا۔ اس نے گدھی کی تلاش میں کافی دوڑ دھوپ کی لیکن بے سود۔ شام کے سائے گہرے ہونے لگے۔ کسان بھی تھک ہار کر واپس گھر آیا اور سوگیا۔ صبح کا گجر بجنے کے ساتھ ہی اس کی آنکھ کھلی۔ مویشیوں کو چارا ڈال ہی رہا تھا کہ پاس ہی گدھی کو اپنی جگہ پر کھڑا پایا۔ کسان نے کسی سے سنا تھا کہ گدھی کبھی رات باہر نہیں گزار سکتی۔ اس لئے خود کلامی کے عالم میں اس کے منھ سے یہ جملہ نکلا کہ ’’خرے تہ گورہ او پہ صحرا شپے تہ گورہ۔‘‘
٭ ’’ڈاکہ پہ ہندوانو پریوتہ، چغے زرگرانو وھلے۔‘‘
کتاب کے صفحہ ساٹھ پر اس حوالہ سے درج ہے کہ ’’ایک گاؤں کے کسی محلہ میں ہندو برادری اور سنار ایک ساتھ رہتے تھے۔ ایک بار ڈاکو آئے اور ہندوؤں پر ہلہ بول دیا۔ ہندوؤں نے شور برپا کردیا کہ ڈاکو آئے ہوئے ہیں۔اس ہنگامہ میں سناروں کے اوسان خطا ہوگئے اور غلط فہمی میں پڑ گئے کہ گویا ڈاکا ان پرڈالا گیا ہے۔ اس کے بعد سناروں نے شور مچاتے ہوئے گویا قیامت برپا کر دی اور اس عمل میں ہندوؤں کو بھی پیچھے چھوڑ کے رکھ دیا۔ بدیں وجہ مثل مشہور ہوئی کہ ’’ڈاکہ پہ ہندوانو پریوتہ، چغے زرگرانو وھلے۔‘‘
٭ ’’خانان بہ بیا سرہ خانان شی، پکی بہ دل شی د رامبیل چامبیل گلونہ۔‘‘
کتاب کے صفحہ اکیاسی پر دیگر کہاوتوں کے ساتھ یہ ٹپہ بھی درج ہے۔ اس کا پس منظر مصنف کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ’’کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں خانوں کے ساتھ نوکر، اُن کے دہقان ہوا کرتے تھے یا پھر عام لوگوں میں خانوں کے اپنے لوگ ہوا کرتے تھے۔ ایک گاؤں میں دو خانوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا۔ ایک خان کی طرف سے رامبیل نامی ایک شخص میدان میں اترا جبکہ دوسرے خان کی طرف سے چامبیل نامی شخص۔ جنگ چھڑ گئی اور کئی روز تک جاری رہی جس میں کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور باقی بری طرح زخمی ہوگئے۔ مرنے والوں میں رامبیل اور چامبیل بھی شامل تھے۔ تھوڑے عرصہ بعد دونوں خانوں کے درمیان صلح ہوگئی۔ بعد میں جب کوئی کمائی والا نہ رہا، تو رامبیل اور چامبیل کی بیوائیں خوانین کی خدمت میں جُت گئیں۔ دونوں بیوہ خواتین جب چھاج سے غلہ پھٹکتیں (اس عمل کو پختو میں’’میچن اڑول یا میچن کول‘‘ کہتے ہیں)، تو ساتھ ہی ٹپوں کا بھی سریلی آواز میں تبادلہ کیا کرتیں۔ ان میں ایک ٹپہ ایسا تھا
خانان بہ بیا سرہ خانان شی
پہ کی بہ دل شی د رامبیل چامبیل گلونہ
ان کا مطلب ہوتا کہ خان خوانین بعد میں صلح صفائی کرلیتے ہیں، مگر غریب دہقان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مذکورہ بیوہ خواتین، اصطلاح ’’دَ رامبیل، چامبیل گلونہ‘‘کو استعاراتی طور پر اپنے یتیم بچوں کے لئے استعمال میں لاتی تھیں۔
٭ ’’خدائے دی داسی حیران کہ لکہ زہ چی دی حیران کڑم۔‘‘
صفحہ نمبر اڑتیس پر اس مثل کے حوالہ سے رقم ہے کہ حضرت سید علی ترمذیؒ عرف پیر بابا اپنے وقت کے ایک بہت بڑے بزرگ اور ولی گزرے ہیں۔ آپ کا مزار بونیر میں ہے۔ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک شخص سے کسی نے پوچھا کہ پیر بابا بڑے ہیں یا ایلم کی چوٹی؟ وہ آدمی حق دق رہ گیا کہ کیا جواب دیا جائے؟ آخرِکار جواباً اس کے منھ سے نکلا کہ ’’خدائے دی داسے حیران کہ لکہ زہ چی دی حیران کڑم۔‘‘
٭ ’’استغفراللہ، تہ دڑیٔ نہ پیژنے۔‘‘
کتاب کے صفحہ نمبر چھیالیس پر اس کا پس منظر کچھ یوں رقم ہے: ’’کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں دوکاندار ہوا کرتا تھا۔اس کے ساتھ پانچ کلو (جسے پختو میں دڑیٔ کہتے ہیں، مترجم) وزن کے دو الگ باٹ ہوا کرتے تھے۔ اس نے ایک کا نام ’’سبحان اللہ‘‘ جبکہ دوسرے کا ’’استغفراللہ‘‘ رکھا تھا (واضح رہے کہ مذکورہ دوکاندار نے سبحان اللہ نامی باٹ وزنی جبکہ استغفراللہ نامی ہلکا بنایا تھا، مترجم)۔ وہ جب کسی سے کوئی چیز خریدتا تھا، تو بیٹے سے کہتا کہ پانچ کلو والا باٹ اٹھا کے لادو۔ بیٹا پوچھتا کہ کون سا والا؟ تو دوکاندار جواباً کہتا سبحان اللہ۔ اس طرح جب کوئی چیز کسی کو بیچی جاتی اور بیٹا، باٹ کے بارے میں پوچھتا، تو یہ قدرے اونچی آواز سے کہتا کہ ’’استغفراللہ، تہ دڑیٔ نہ پیژنے۔‘‘
٭ ’’منگے مات شو او کہ مات نہ شو، ڈز ئے لاڑ۔‘‘
کتاب کے صفحہ چورانوے پر محولہ بالا کہاوت کا پس منظر کچھ یوں بیان کیا گیا ہے: ’’کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی۔ یہ ابھی اڈے تک پہنچے ہی تھے کہ گاؤں میں شور مچ گیاکہ فلاں لڑکی ایک لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے۔رشتہ داروں نے ادھر ادھر تلاش شروع کردی، جس میں کچھ اڈے تک بھی پہنچ گئے۔ لڑکے نے جیسے ہی دیکھا کہ لڑکی کے رشتہ دار پہنچ گئے ہیں، تو وہ پتلی گلی سے نکل گیا۔ رشتہ دار لڑکی کو پکڑ کر گھر لے آئے۔ جتنے منھ اتنی باتیں، مگر رشتہ دار اپنے تئیں صفائی کر رہے تھے کہ لڑکی کو اڈے سے پکڑ کر لائے ہیں اور اگر تھوڑی دیر اور ہوجاتی، تو لڑکی ہاتھ سے نکل جاتی۔ اتنے میں وہاں کھڑے ایک بزرگ نے کہا کہ :پریدیٔ سڑو! ’’منگے مات شو او کہ مات نہ شو خو ڈز ئے لاڑ۔‘‘ مطلب لڑکی بھاگی یا پکڑی گئی مگر گاؤں میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہے۔
٭ ’’چی چرتہ غم وی، ھلتہ متشم وی۔‘‘
کتاب کے صفحہ نمبر سو پر مصنف کچھ یوں رقمطرا ز ہیں: ’’کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے کسی گاؤں میں متشم نامی ایک عمر رسیدہ شخص رہتا تھا۔ اسے سیاست کا بہت شوق تھا جس کی وجہ سے وہ ہر کسی کے خوشی اور غم میں برابر کا شریک ہوتا۔ نور ظہور کے تڑکے اس کھوج میں لگا رہتا کہ کہیں کوئی فوتگی تو نہیں ہوئی ہے؟ بعض اوقات وہ سب سے پہلے وہاں موجود ملتا۔ یہی عمل اس کی وجۂ شہرت بنا اور کسی نے اس کے پیچھے یہ کہاوت کہہ دی کہ ’’چہ چرتہ غم وی، ھلتہ متشم وی۔‘‘
٭ ’’چی سر ئی حیات وی، ناست دی پہ گجرات وی۔‘‘
مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر اکتالیس پر محولہ بالا مثل کا پس منظر کچھ یوں رقم ہے: ’’کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی کا بیٹا گھر سے نکل کر کہیں بھاگ گیا۔ کسی نے کہا کہ لاپتا ہوگیا ہے، کوئی کہتا کمہاروں کے ہاتھ لگا ہے۔ اس کی تلاش میں نہ صرف اس کے والد بلکہ دیگر رشتہ دار بھی گھومتے پھرتے رہے۔ اس کی ماں بیٹے کے غم میں گھلی جا رہی تھی۔ گھر میں صف ماتم بچھ گئی تھی۔ چند دنوں بعد پتا چل گیا کہ لڑکا گجرات میں ہے اور بخیر و عافیت ہے، تو اس کے والدین کہنے لگے کہ ’’چی سر ئی حیات وی، ناست دی پہ گجرات وی۔‘‘
٭ ’’زور بہ دبی بی منے، خایست بہ د زیدی منے۔‘‘
صفحہ اَسّی پر محمد انور لشکری رقمطراز ہیں: ’’ایک عام روایت ہے کہ پختون معاشرہ میں عورتوں کا کردار حیا اور غیرت کے حوالہ سے ضرب المثل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مالدار گھرانا تھا جس میں ایک بڑی عمر کی خاتون رہا کرتی تھی۔ چھوٹے بڑے سب اسے ’’بی بی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ایک دن ڈاکا ڈالنے کی غرض سے کچھ ڈاکو اس گھر میں داخل ہوئے۔ اتفاق سے اُس رات بی بی جاگ رہی تھی جس کی وجہ سے ڈاکو بھاگتے وقت اپنا پیزار اور چادر چھوڑ گئے۔ دوسری طرف گاؤں زیدہ صوابی کا تصدیق شدہ گاؤں ہے، جہاں کے چھوٹے بڑے بھلی صورت کے ساتھ ساتھ اچھے کردار کے حامل بھی ہیں۔ قصہ کوتاہ، جب صبح ہوئی، تو شناخت کی غرض سے ڈاکوؤں کی نشانی (چادر اور چپل) حجرہ میں لائی گئی۔ بعد میں شناخت ہوئی، ڈاکوؤں تک رسائی حاصل کی گئی اور انہیں باقاعدہ طور پر سزا بھی دی گئی۔ وہاں سے یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ ’’زور بہ د بی بی منے، خایست بہ د زیدی منے۔‘‘