سبزیاں صحت مند زندگی کی علامت

زراعت کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور خوش قسمتی سے پاکستان بھی اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہے جس کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز کے ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنایزیشن کے ایک گذشتہ سروے کے مطابق پاکستان دنیا میں چنے کی پیداوار میں تیسرے نمبر پر، کپاس، چاول اور آم کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر، دودھ، کھجور اور شکر کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر، خوبانی، کینو اور مالٹا کی پیداوار میں چھٹے نمبر پر جب کہ پیاز اور گندم کی پیداوار میں ساتویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے کئی علاقے زمین کے ان خطوں میں آتے ہیں جو کہ زراعت کے لیے نہایت ہی موزوں اور زرخیز ہیں۔ پاکستان میں روایتی کاشت کاری کے ساتھ ساتھ اب غیر روایتی و غیر موسمی سبزیوں، پھلوں و پھولوں کی کاشت بھی جاری ہے اور بہت سارے کاشت کار و زمین دار اب ٹنل فارمنگ اور ورٹیکل گارڈن کے میدان میں آچکے ہیں اور ہایبرڈ بیجوں سے عمدہ قسم کی سبزیاں اور پھل ہر موسم میں اُگا کر مارکیٹ میں سپلائی کر رہے ہیں۔
ایسے ہی ترقی پسند کاشت کاروں میں خیبر پختون خوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے رحمت سید (لالی) بھی ہیں جو اپنے گاؤں پنج پیر میں اپنی آبائی زمین پر کچھ غیر روایتی سبزیاں کاشت کرتے ہیں۔ لالی پچھلے اَٹھارہ سال سے مختلف اقسام کی سبزیاں خود کاشت کرتا ہے اور پھر اُن کی مارکیٹنگ بھی خود ہی کرتا ہے۔ حالاں کہ یہ تمام کام ایک شخص کے بس کی بات نہیں ہے لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور نامساعد حالات کا ڈٹ کرمقابلہ کیا اور ایسی سبزیاں کاشت کیں جن کے نام سے بھی لوگ ناآشنا تھے۔ لالی کے ساتھ ملاقات اچانک حیات آباد (پشاور) کے اتوار بازارمیں ہوئی۔ اس ہفتہ وار بازار میں سبزیاں اور فروٹ وافرمقدار میں تازہ حالت میں دست یاب ہوتی ہیں۔ بازا ر میں ایک چھوٹے سے اسٹال پر چائینز گوبھی، برسل سپراوٹس، آئس برگ، سرخ گوبھی، بروکلی اور دوسری سبزیوں پر نظر پڑی جو کہ عموماً پشاور میں دست یاب نہیں ہوتی۔ یہ سبزیاں آپ کو ملک کے بڑے اسٹوروں میں تو مل جاتی ہیں مگر عام مارکیٹ میں بہت کم ہوتی ہیں، کیوں کہ ہمارے کاشت کاروں میں ابھی ایسی سبزیاں کاشت کرنے کارجحان نہیں پڑا۔

پاکستان دنیا میں چنے کی پیداوار میں تیسرے نمبر پر، کپاس، چاول اور آم کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر، دودھ، کھجور اور شکر کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہے۔

رحمت سید لالی نے بتایا کہ اُن کے علاقہ میں ایک بینک منیجر نے اٹھارہ سال پہلے اپنے کھیتوں میں یہ سبزیاں کاشت کرنا شروع کی تھیں لیکن چوں کہ نئی سبزیوں کو کاشت کرنا، اُن کی حفاظت اور مارکیٹنگ بہت مشکل کام ہوتا ہے، اس لیے کچھ عرصہ بعد انھوں نے ان سبزیوں کی کاشت ترک کر دی۔ انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس بھی قابل کاشت زمین موجود تھی جس پروہ روایتی کاشت کاری کرتے چلے آ رہے تھے۔ انھوں نے اپنی زمین پر دیگر سبزیوں کے ساتھ موسم کی مطابقت سے دوسری سبزیاں بھی اُگانا شروع کیں۔ ابتدا میں تھوڑا بہت نقصان تو ہوا مگر پھر انھوں نے خود مارکیٹنگ کرنا شروع کی اور پشاور کی مختلف مارکیٹوں میں اپنی سبزیاں خود پہنچانا شروع کیں جس کا ان کو خاطر خواہ نتیجہ ملتا رہا۔ اب وہ پچھلے اٹھارہ سالوں سے اپنی زمین پر سپراوٹس، پارسلے، آئس برگ، چائنز گوبھی، سیرلی، لیک، ریڈ گوبھی و دیگر کئی اقسام کی سبزیاں کاشت کرتے ہیں پشاور اور آس پاس کے علاقوں کے اُن لوگوں کے لیے جو مختلف سبزیاں استعمال کرنے کا شوق رکھتے ہیں،رحمت سید لالی کسی رحمت سے کم نہیں۔ اُن سے یہ سبزیاں نہایت مناسب قیمت پر لی جاسکتی ہیں، جن کی قیمتیں سپراسٹورز وغیرہ میں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر محکمۂ زراعت ایسے ترقی پسند کاشت کاروں کی تربیت و معاونت کرے، تو دیگر کاشت کار بھی ایسی منافع بخش سبزیاں اور پھل اُگانے کی طرف راغب ہوں گے۔
سبزیاں کچی یا اَدھ پکی کھائی جاسکتی ہیں جن سے نہ صرف ان کے غذائی فواید برقرار رہتے ہیں بلکہ جسم کو بھی مطلوبہ توانائی ملنے کے ساتھ ساتھ اُن کے ذایقے سے بھی محظوظ ہوا جاسکتا ہے۔ اکثر ہمارے گھروں میں سبزیوں کو زیادہ پکایا جاتا ہے جو کہ صرف پیٹ بھرنے کے کام آتی ہیں اور مطلوبہ غذائی ضروریات بہت کم ہی پوری ہوتی ہیں۔ آج کل کی زندگی کی مصروفیات کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہو رہے جن کے خوراک میں جنک فوڈیعنی بازار کی تیارو تلی ہوئی اشیاء کا استعمال زیادہ ہوتا ہے جس سے نہ صرف موٹاپے کی شکایات بڑھ رہی ہیں بلکہ جسم کے دوسرے حصوں کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تازہ سبزیوں اور فروٹس کا استعمال نہ کرنا ہے۔ موسم کے مطابق فروٹس و سبزیوں کا استعمال نہ صرف ہمارے جسم کو متوازن رکھتا ہے بلکہ انسان تمام دن چست و توانا رہتا ہے۔ آج کل سب سے بڑا مسئلہ بچوں کو صحت مند غذاؤں کی طرف راغب کرنا ہے۔ اکثر بچے سبزیوں اور پھلوں کی بہ نسبت بازار کے تیار کھانوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف اُن کی صحت خراب ہوتی ہے بلکہ اُن کی صحیح نشو و نما بھی متوازن خطوط پر نہیں ہوتی۔ سبزیوں کی خریداری کرتے ہوئے اگر بچوں کو اپنے ساتھ رکھا جائے اور اُن کی پسند سے سبزیاں خریدی جائیں، پھر اُن کو ساتھ ساتھ آسان الفاظ میں یہ بھی بتایا جائے کہ یہ سبزیاں کیوں استعمال ہوتی ہیں، کس لیے استعمال ہوتی ہیں ، ان کے کیا کیا فواید ہیں، ان کے ذایقے کیسے ہوتے ہیں، کون سی سبزیاں پکا کر کھائی جاتی ہیں، کون سی کچی استعمال ہوتی ہیں اور کون کون سی سبزیاں بہ طور سلاد استعمال ہوتی ہیں، تو کوئی شک نہیں کہ بچے بھی سبزیوں اور پھلوں کو کھانے میں دل چسپی لینا شروع کریں اور اگر گھر میں سبزیوں کی صفائی، کٹائی (بڑے بچوں سے) بھی کروائی جائے، تو اس طرح بھی اُن کو دل چسپ انداز سے سبزیاں کھلائی جاسکتی ہیں۔
اس طرح اگر گھروں میں دستیاب مناسب جگہوں پر اپنی سبزیاں اُگائی جائیں اور بچوں کو بھی پودے لگانے اور اُن کو پانی سینچنے کی تربیت دی جائے، تو بے شک یہ اُن کے لیے بہترین تعلیم و تربیت بھی ہوگی اور اُن کے اندر فطرت سے محبت بھی فروغ پائے گی۔ کچن گارڈننگ کو فروغ دے کر کم از کم ہم اپنے کچن کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں اور اگر زیادہ سبزیاں اُگ آئیں، تو اپنے پڑوس و رشتہ داروں کو بھی بہ طور تحفہ بھیج سکتے ہیں۔

کچن گارڈننگ کو فروغ دے کر کم از کم ہم اپنے کچن کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں. (Photo: agrinfobank.com.pk)

کچن گارڈننگ کے حوالہ سے فیصل آباد کے قادر بخش گارڈن کے مالک طارق تنویر صاحب کی خدمات قابل ذکر ہیں، جونہ صرف عام لوگو ں کو گارڈننگ و کچن گارڈننگ کے بارے میں معلومات و تربیت دیتے ہیں بلکہ ’’کچن گارڈن ایسوسی ایشن‘‘کی پاکستانی شاخ کی بنیاد بھی رکھی ہے۔ کچن گارڈننگ کے حوالہ سے شعور بیدار کرنے اور عوام کو اپنی سبزیاں آپ اُگانے کی تربیتی ٹریننگ اورمختلف فارمز اور باغات کے ٹورز کا بھی بندوبست کرتے ہیں جب کہ ہمارے بہت ہی ہر دل عزیز برادرم مصطفی ملک صاحب بھی اپنے قلم کے ذریعے انٹرنیٹ، اخبارات و رسایل کے توسط سے آسان الفاظ میں عوام کو کچن گارڈننگ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی شوق کو پروان چڑھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
اگر ہم تھوڑی سی توجہ اور اپنی مصروف زندگی میں تھوڑا سا وقت فطرت سے محبت کے لیے نکالیں، تو نہ صرف ہمارا آس پاس کا ماحول بہترہوگا بلکہ ان مثبت سرگرمیوں سے ہماری زندگیوں میں موجود ٹینشن وڈپریشن بھی دور ہوسکے گا۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔