سپین خوڑ جھیل

’’سپین خوڑ ‘‘ (Spin Khwar) پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’سفید یا صاف و شفاف پانی کی ندی‘‘ کے ہیں۔ ’’سپین خوڑ جھیل‘‘ شمال کی طرف سے کنڈول جھیل اور مشرق کی طرف سے وادیٔ اتروڑ کے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ یونین کونسل اتروڑ، سوات کے ضلعی صدر مقام سیدو شریف سے ایک سو بیس کلومیٹر اور کالام سے سولہ کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ بحرین سے آگے روڈ کی حالت خستہ ہے جس پر سفر کرنے کے لئے فور بائے فور گاڑی بہترین آپشن ہے۔
سپین خوڑ جھیل تین اطراف (مشرق، شمال، جنوب) سے فلک بوس پہاڑوں کے درمیان گھِری ہوئی ہے۔ مغربی طرف سے بڑے بڑے پتھروں نے جھیل کے نیلے پانی کا راستہ روک رکھا ہے جس کی وجہ سے پانی نے ان پتھروں کے بیچ گہرائی میں اپنا راستہ نکال لیا ہے اور ایک آبشار کی شکل میں جھیل سے کوئی ایک گھنٹہ کی مسافت پر نیچے پہاڑ کے دامن میں بہتا ہے۔
سپین خوڑ جھیل تک رسائی دو راستوں کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔ پہلا راستہ ’’وادیٔ لدو‘‘ سے ہوکر کنڈول جھیل کی طرف نکلتا ہے۔ وہاں سے کم وقت میں سپین خوڑ جھیل تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن یہ انتہائی دشوار گزار ہے اور ٹریکنگ (Trekking) کا تجربہ نہ رکھنے والوں کے لئے خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

 وادیٔ لدو کا ایک دلفریب منظر
وادیٔ لدو کا ایک دلفریب منظر

دوسرا راستہ وادیٔ لدو سے جھیل کی طرف پہنچتا ہے جومقابلتاً بہتر اور سہل ہے۔مذکورہ راستہ ’’سپین خوڑ آبشار‘‘ تک پہنچ کر مزید دو چھوٹے راستوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ آبشار کی طرف منھ کرکے دائیں طرف شروع ہونے والا راستہ گھنے جنگل میں سے ہوکر مسلسل چڑھائی کی شکل میں اوپر جھیل تک پہنچتا ہے۔ اس راستے سے چل کر انسان قدرت کو اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر پاتا ہے۔ گھنے جنگل میں مختلف پرندوں کی مسحور کن آوازیں گویا کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ چاروں اُور سبزہ، ہریالی اور رنگ برنگے جنگلی پھول آنکھوں کو تراوت بخشتے ہیں۔ قدم قدم پر چھوٹے چھوٹے جھرنے پیاس بجھانے کے لئے شور مچاتے رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر ہر دس پندرہ منٹ بعد مختلف گھاٹیوں میں جمی ہوئیبرف پورا کردیتیہے۔ مگر اس راستہ کے ساتھ صرف ایک مشکل ہے کہ یہ آبشار کے مقام سے کوئی ڈھائی تین گھنٹے تک کا صبر آزما مرحلہ ہے۔ واضح رہے کہ وادیٔ لدو سے سپین خوڑ آبشار تک کا راستہ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بنتا ہے۔ یوں کل ملا کر یہ سفر پانچ تا چھ گھنٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔

 اس مقام پر کنڈول اور سپین خوڑ جھیل سے نکلنے والے پانی کا سنگم ہوتا ہے
اس مقام پر کنڈول اور سپین خوڑ جھیل سے نکلنے والے پانی کا سنگم ہوتا ہے

دوسرا راستہ آبشار کی بائیں جانب سے ہوکر سیدھا جھیل تک پہنچتا ہے۔ یہ راستہ بڑے بڑے پتھروں کے درمیان میں سے نکلتا ہے۔ چونکہ یہاں تقریباً ہر بارش کے بعد چھوٹی بڑی سلائیڈنگ ہوتی رہتی ہے، اس لئے اس راستہ پر درخت نامی کوئی شے نہیں ہے۔ سلائیڈنگ کی وجہ سے راستے میں بڑے بڑے پتھر تقریباً جھیل تک بکھرے پڑے ہیں۔ درختوں کی کمی کی وجہ سے سورج کی شعاعیں وقتاً فوقتاً تنگ کرتی رہتی ہیں اور پیاس بھی خوب لگتی ہے۔ چونکہ راستے میں دو تین جگہوں پر پتھروں کے درمیان پانی گزرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس لئے پیاس باآسانی بجھائی جاسکتی ہے۔ بہتر ہے اگر دورانِ سفر پانی کی بوتل ساتھ رکھی جائے۔اگر پہاڑوں پر چڑھنے کا تھوڑا بہت مشق ہو، تو اس راستے سے دو گھنٹوں میں جھیل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اس طرح کل ملا کر اس راستے سے ساڑھے تین گھنٹوں کی مسافت کے بعد جھیل تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
راستے میں وقتاً فوقتاً گائیڈز ہمیں قیمتی معلومات بھی دیتے رہے۔ جب ہماری ٹیم نے وادیٔ لدو سے پیدل سفر کا آغاز کیا تو وادیٔ اتروڑ کے محمد رحیم (گائیڈ) نے ایک سفید پھول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پودے کی جڑ ہم دوا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ’’سفید پھول والے اس پودے کو ہمارے علاقے میں ’مابیک‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی جڑ کو حاصل کرنے کے بعد اسے یہاں روائتی طور پر سُکھایا جاتا ہے۔ سکھانے کے عمل کے بعد اس کو پیسا جاتا ہے اور آخر میں اسے دیسی گھی کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ کمر درد کے لئے یہ دوا تیر بہدف نسخہ ہے۔ ایک اور پودا ملہم (مرہم) ہے جسے جب چبایا جاتا ہے، تو وہ چیونگ گم کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اس کے پتوں کو چبانے کے بعد ہم زخم پر رکھتے ہیں۔ زخم چاہے کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، روائتی طور پر ہم ملہم کو دوا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مابیک پودا سپین خوڑ جھیل جبکہ ملہم اسمس جھیل (Ismis Lake) کے راستے میں بکثرت پایا جاتا ہے۔‘‘

 وادیٔ اتروڑ کی دیسان ویلی جہاں قدرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے
وادیٔ اتروڑ کی دیسان ویلی جہاں قدرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے

ایک صبر آزما عمل کے بعد جب سانس پھولی ہوئی ہوتی ہے، پسینے چھوٹ رہے ہوتے ہیں اور ایسے میں جھیل پر پہلی نظر پڑتی ہے، تو نہ چاہتے ہوئے بھی منھ سے مارے خوشی کے چیخ نکل جاتی ہے۔ سینے میں دل دھکڑ پکڑ کرنے لگ جاتا ہے۔ اکیس مئی کو ایس پی ایس ٹرکنگ کلب (سوات) کے ممبران کے ساتھ جھیل پر پہنچا، تو جھیل کے کناروں پر اچھی خاصی برف موجود پائی۔ جھیل کے کناروں پر نیلگوں پانی میں برف کے بڑے بڑیٹکڑے تیرتے دکھائی دے رہے تھے۔ سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا مگر ہوا اتنی سرد اور تیز تھی کہ ہمیں گرم کپڑے نکال کر پہننا پڑے۔ ایسی سرد ہوا ؤں کا راج سوات کے میدانی علاقوں میں دسمبر یا جنوری کو ہوا کرتا ہے۔
جھیل کی سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس سے پانی خارج ہونے کا بظاہر کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ تین اطراف (مشرق، شمال اور جنوب ) سے اسے فلک بوس چوٹیاں گھیرے ہوئی ہیں جبکہ مغرب کی طرف سے بڑے بڑے پتھر پانی کے آگے بند باندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر پشتو کی ایک مشہور کہاوت ’’ د اُوبو لارہ چا نیولی؟‘‘ (پانی کا راستہ کس نے روکا ہے؟) کے مصداق جھیل کا پانی انہی پتھروں میں گہرائی میں اپنا راستہ نکالنے میں کامیاب ہوا ہے۔ جھیل میں پانی سبز مائل نیلا رنگ لئے ہوئے ہے جبکہ نیچے آبشار تک پہنچتے پہنچتے یہ بالکل سفید رنگ لے لیتا ہے اور شائد اسی وجہ سے اسے ’’سپین خوڑ‘‘ (سفید یا صاف و شفاف پانی کی ندی) کہتے ہیں۔

 سپین خوڑ جھیل پر پڑنے والی پہلی نظر
سپین خوڑ جھیل پر پڑنے والی پہلی نظر

گاؤں لدو واپسی کے وقت جھیل کا خارج شدہ پانی ایک گنگناتی آبشار کی شکل میں بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی سو ایک سو بیس فٹ اوپر سے نیچے گرتے ہوئے پانی کو دیکھ کر سیاحوں کے دل میں گدگدی سی ہوتی ہے۔ پھوار دور دور تک ہلکے ہلکے مینہ کی شکل میں اڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ آبشار کے قریب عکاسی کی غرض سے کھڑے ہونے والے سیاحوں کے کپڑے پلک جھپکتے میں گیلے ہوجاتے ہیں اور کیمرہ کے عدسے کو ہر دوسری تیسری تصویر کے بعد صاف کرنا پڑتا ہے۔ مذکورہ آبشار کو جھیل کی مناسبت سے ’’سپین خوڑ آبشار‘‘ کہتے ہیں۔

 سپین خوڑ جھیل دوسرے زاویہ سے
سپین خوڑ جھیل دوسرے زاویہ سے

جھیل کی سیر کرنے والے سیاحوں کو کالام یا اتروڑ سے باآسانی گائیڈز مل سکتے ہیں۔ ان کے مخصوص دام نہیں ہیں۔ عموماً دو ہزار سے لے کر پانچ ہزار تک یومیہ لیتے ہیں۔ گائیڈز کی دل لبھانے والی بات یہ ہے کہ وہ اتنے ’’کو آپریٹو‘‘ ہوتے ہیں کہ محض دو تینگھنٹوں میں ان پر فیملی ممبر کا گمان ہونے لگتا ہے۔ یہ نہ صرف سیاحوں کی رہنمائی کرتے ہیں بلکہ انھیں دشوار گزار راستوں سے بچوں کی طرح ہاتھ پکڑکر گزارتے بھی ہیں۔سیاحوں کے ساتھ ہلکا پھلکا سامان اپنے کاندھوں پر لادتے ہیں۔ ان بھلے مانسوں کی بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ حکومت بحرین تا اتروڑ سڑک (لگ بھگ اکیاون کلومیٹر)کو تعمیر کرے۔ تقریباً تمام گائیڈز کی کہانی ایک جیسی ہے۔ مئی سے لے کر اگست کے آخر تک یعنی چار ماہ وہ سیاحوں کی راہ تکتے ہیں اور باقی کے مہینے ملک کے گرم علاقوں میں جسم و جاں کا رشتہ بحال رکھنے کی خاطر سخت محنت مزدوری کرتے ہیں۔