افسانہ معاشرے کا عکاس ہوتا ہے

افسانہ ایک کہانی ہوتا ہے جو نہ تو داستان یاناول کی طرح بڑی اور لمبی کہانی ہوتا ہے اور نہ ڈرامے کی طرح اس میں کردار نگاری اور مکالمے بولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ یہ سٹیج کا محتاج ہی ہوتا ہے۔ اگر افسانہ کے لیے صرف وقت ہی کا تعین کیا جائے، تو پھر تو بہت سے ناول اور داستان افسانہ کے دائرہ میں داخل ہو جائیں گے۔ کیوں کہ ایسے افسانے بھی دنیا کے ادب میں موجود ہیں جو صرف ایک منٹ میں پڑھے جا سکتے ہیں جیسا کہ دنیا کا مختصر ترین افسانہ: ’’دو سوار ٹرین میں سفر کر رہے تھے پہلے سوار نے دوسرے سے پوچھا کیا تم جنات پر یقین رکھتے ہو؟‘‘دوسرے نے جواب دیا: ’’نہیں۔‘‘یہ سن کر پہلا مسافر غائب ہو گیا۔‘‘
اور ایسے افسانے بھی ہیں جنھیں پڑھنے کے لیے کم سے کم چار یا پانچ گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ یوں تو افسانہ ہرکہانی کو کہتے ہیں لیکن مختصر افسانے کے چند لوازمات ہوتے ہیں۔ مثلاً وحدت تاثر، رمزیت، اسمائیت اور مواد کی فنکارانہ ترتیب وغیرہ۔
مختصر افسانہ اس نثری داستان کو کہتے ہیں جو ایک ہی نشست میں ختم ہو جائے۔ سید وقار عظیم کے مطابق: ’’سچا یا فرضی واقعہ ایک خوبصورت انداز میں بیان کیا جاتا ہے اور پھراس کا ہرایک حصہ اور ہر ایک فقرہ ایک ایسے انداز سے جوڑا جاتا ہے کہ اول تا آخر اس کا مقصد اور اثر قائم رہے۔‘‘
مختصر افسانہ ایک ایسا نثر پارہ ہوتا ہے جو زندگی کی ایک حقیقت کو کفایت لفظی اور ضروری اختصار سے اس طرح پیش کرے کہ اس سے صداقت آشکار ہو اور انسانی ذہن نہ صرف اس تاثر کو قبول کرے بلکہ اس کی آگہی میں اضافہ ہو۔ مختصرکہانی یعنی افسانہ ایک تاثر کے زیرِ اثر دکھایا جاتا ہے۔ اس میں تمام کردار اور پلاٹ ایسے ہوتے ہیں جو ایک تاثر دے سکیں اور افسانہ ختم ہونے کے بعد بھی پڑھنے والے کے ذہن میں وہی تاثر تادیر قائم رہے۔ ہرافسانہ کئی قسم کی ’’ٹریجڈیز‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے لیکن یہ سارے حادثات ایک ہی دھاگے میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں اور ہر حادثہ دوسرے حادثے پر منحصر ہوتا ہے۔ افسانہ عام ذہن کی پیداوار ہے۔ اس میں زندگی کے کسی ایک پہلو کا اظہار کیا جاتا ہے۔
ویسے تو افسانہ کسی ایک کردار، کسی خاص حالت یا زندگی سے متعلق کسی ایک موڈ یا کسی کی ذہنی کیفیت کا عکاس ہوتا ہے۔ مختلف افسانہ نگاروں اور ماہرینِ ادب نے اس کی مختلف الفاظ میں تعریف کی ہے اور اپنی رائے کا اظہار کیا ہے لیکن امریکن کہانی کار ’’ایڈگر ایلن پو‘‘ جس نے سب سے پہلے افسانہ کی شناخت کرائی ہے، کے مطابق افسانہ ایسا ہونا چاہیے جو نصف سے دو گھنٹے میں پڑھا جا سکے جبکہ H.G.Wells کے مطابق افسانہ کہانی کی وہ قسم ہے جو آدھے گھنٹے میں پڑھا جا سکے، مگر زیادہ تر نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ افسانہ ایسا ہونا چاہیے جو ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکے اور ایک تاثر پیدا کر سکے۔
افسانہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور وہ افسانہ سرے سے افسانہ ہی شمار نہیں ہوتا جب تک اس میں معاشرے اور زندگی سے متعلق موضوع شامل نہ ہو۔ یہ تب ایک معیاری افسانہ ہوتا ہے جب اس میں معاشرہ میں رہنے والے لوگوں کے نظریات شامل ہوں۔ ادب اور سیاست لازم و ملزوم ہیں۔ افسانہ معاشرہ میں رہنے والوں کے جذبات، محسوسات، خواہشات، عقائد، رجحانات، زندگی کے قوانین اور ملکی آئین وغیرہ کا مجموعی خاکہ پیش کرتا ہے۔
افسانہ زندگی اور سماج کے مختلف مسائل کے لیے گویا آئینہ کا کردار ادا کرتا ہے۔ ان کے بارے میں آگہی پیدا کرتا ہے اور آئندہ کے سفر کی سمت وجہت کا تعین کرتا ہے۔
اگرچہ افسانہ کی تحقیق کے بارے میں نقادوں کے درمیان فکری ہم آہنگی نہیں، تاہم وقار عظیم کے افسانے کی شناخت کے بارے میں اتفاق رائے موجود ہے۔ افسانہ کے متعلق سید وقار عظیم نے اپنی کتاب ’’افسانہ نگاری‘‘ میں کچھ اس طرح اظہار کیا ہے: ’’افسانہ کہانی میں پہلی مرتبہ وحدت کی اہمیت کا مظہر بنا۔ کسی ایک واقعہ کو ایک جذبہ، ایک احساس، ایک تاثر، ایک اصلاحی مقصد، ایک روحانی کیفیت کو اس طرح کہانی میں بیان کرنا کہ وہ دوسری چیزوں سے نمایاں ہو کہ پڑھنے والے کے جذبات و احساسات پر اثر انداز ہو۔ افسانہ کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس نے اسے داستان اورناول سے الگ کیا ہے۔ مختصر افسانہ میں اختصار اور ایجاز کی دوسری امتیازی خصوصیت نے اس کے فن میں سادگی، حسن تربیت و توازن کی صفت پیدا کر دی ہے۔‘‘

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔