حج کے لیے گناہ کا ارتکاب جائز نہیں

گذشتہ نشست میں، مَیں نے فرضیت حج کے بارے میں مختلف باتیں عرض کی تھیں، جس میں یہ عرض کیا تھا کہ حج ہر صاحبِ استطاعت پر زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے اور جب آدمی ایک مرتبہ حج کرکے واپس آتا ہے، تو اس کی پیاس اور زیادہ بڑھ جاتی ہے اور پھر بار بار جانے کو دل چاہتا ہے۔ دوبارہ جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ جب بھی موقع ہو، آدمی نفلی حج پر جاسکتا ہے مگر اس میں اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ نفلی عبادتوں کی وجہ سے کسی گناہ کا ارتکاب نہ کرنا پڑے۔ کیوں کہ نفلی عبادت کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کو نہ کریں، تو کوئی گناہ نہیں اور دوسری طرف گناہ سے بچنا واجب ہے۔ مثلاً جب حج کی درخواست دی جاتی ہے، تو اس میں یہ لکھنا کہ "میں نے اس سے پہلے حج نہیں کیا۔” حالاں کہ آپ نے ایک مرتبہ حج کیا ہوا ہوتا ہے، تو یہ آپ نے جھوٹ بولنے کا ارتکاب کیا اور جھوٹ بولنا حرام ہے۔ گویا آپ نے نفلی عبادت کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کرلیا اور شریعت میں نفلی عبادت کے لیے جھوٹ کے ارتکاب کی کوئی گنجائش نہیں۔
اسی طرح اگر اسپانسر شپ کے تحت حج کی درخواست دینی ہو، تو اس کے لیے باہر سے ڈرافٹ منگوایا جاتا ہے۔ بعض لوگ یہاں سے خرید لیتے ہیں جس کے نتیجے میں سودی معاملہ کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے۔ اب حج ایک نفلی عبادت کے لیے سودی معاملہ کرکے جانا، شرعاً اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ اسی طرح ایک شخص کے ذمے دوسروں کا قرض ہے، تو قرض کی ادائیگی انسان پر مقدم ہے۔ اب وہ شخص قرض ادا نہیں کر رہا ہے لیکن ہر سال حج پر جا رہا ہے، گویا کہ فرض کام چھوڑ کر نفل کام کی طرف جا رہا ہے۔ یہ حرام اور ناجائز ہے۔ اسی طرح ایک شخص خود تو نفلی حج اور نفلی عمرے کر رہا ہے جب کہ گھر والوں کو اور جن کا نفقہ اس شخص پر واجب ہے، ان کو نفقہ کی تنگی ہو رہی ہے، تو یہ سب کام ناجائز ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ بیٹیوں اور بہنوں کا حصہ نہیں دیتے۔ ان کو میراث سے محروم کرتے ہیں۔ حرام کمانے سے حج کے لیے جاتے ہیں یا پھر لوگوں کا حق مار کر حج کے لیے جاتے ہیں۔ لوگوں کی زمینوں پر، لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرکے، لوگوں کو دھوکا دے کر، لوگوں کا مال غصب کرکے پھر حج کے لیے جاتے ہیں۔ یہ محض اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ اس حوالہ سے پشتو کے کچھ اشعار عرض کرنا چاہتا ہوں:
تہ خو حاجی شولے مکے تہ لاڑے
احرام دی وتڑو کعبے تہ لاڑے
ستا پہ گاونڈ کے چا د ولگی ژڑل
ثواب دی پریخودو روضی تہ لاڑے
مال دی حلال وو کہ حرام دے ویوڑو
دا خو منم چہ مدینی تہ لاڑے
دلتہ دی حق د خوا ر غریب اوخوڑو
ہلتہ شیطان ولے، توبے تہ لاڑے
دلتہ کہ لارہ د جمات بندہ وے
ہلتہ ثواب گٹے عمرے تہ لاڑے
حضرت عبداللہ ابن مبارکؒ بڑے اونچے درجے کے محدثین اور فقہائے کرام میں سے ہیں۔ یہ ہر سال حج کے لیے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ اپنے قافلے کے ساتھ حج پر جا رہے تھے کہ راستے میں ایک بستی کے پاس سے گزر ہوا۔ بستی کے قریب ایک کوڑے کا ڈھیر تھا۔ ایک بچی بستی سے نکل کر آئی اور وہاں کوڑے میں ایک مردار مرغی پڑی ہوئی پائی۔ اس بچی نے اس مردار مرغی کو اٹھایا اور جلدی سے اپنے گھر کی طرف چلی گئی۔ عبداللہ ابن مبارکؒ کو دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ یہ بچی ایک مردار مرغی اٹھا کر لے جا رہی ہے۔ چناں چہ آپ نے آدمی بھیج کر اس بچی کو بلوایا کہ تم اس مردار مرغی کو کیوں اُٹھا کر لے گئی ہو؟ اس بچی نے جواب دیا کہ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے گھر میں کئی روز سے فاقہ ہے اور ہمارے پاس اپنی جان بچانے کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اس مردار مرغی کو کھا لیں۔ عبداللہ ابن مبارکؒ کے دل پر بڑا اثر ہوا اور آپ نے فرمایا کہ ہم حج کا یہ سفر ملتوی کرتے ہیں، جو پیسہ ہم حج پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ پیسہ ہم اس بستی کے لوگوں پر خرچ کریں گے، تاکہ ان کی بھوک پیاس اور ان کی فاقہ کشی کا سدباب ہوسکے۔
لہٰذا تمام عبادات میں اعتدال مطلوب ہے۔ یہ نہیں کہ ہمیں حج و عمرہ کرنے کا شوق ہوگیا ہے۔ اب ہمیں یہ شوق پورا کرنا ہے۔ چاہے اس کے نتیجے میں شریعت کے دوسرے تقاضے نظر انداز ہوجائیں بلکہ شریعت نام ہے جس وقت میں اور جس جگہ میں جو ہم سے مطالبہ ہے، اس مطالبے کو پورا کرنے کا۔ اور یہ دیکھیں کہ اُس وقت میرے مال کا صحیح مصرف کیا ہوسکتا ہے؟ جس کی اس وقت میں زیادہ ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ نفلی عبادتوں میں ان باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو، آمین۔

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔