بچوں پر جنسی تشدد، حل کیا ہے؟

آج کل ملک کے مختلف علاقوں خصوصاً پنجاب کے شہروں میں بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے بعد قتل کرنے کی خبریں کچھ زیادہ ہی آ رہی ہیں، اس جرم کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ قابلِ نفرت عمل کرنے کے بعد مجرم عموماً چھپ جانے میں کامیاب رہتا ہے۔ ظلم وزیادتی کے شکار بچوں کو قتل کرنایہ ثابت کرتا ہے کہ مجرم متاثرہ بچے کا کوئی قریبی شخص ہوتا ہے اور پہچانے جانے کے خوف سے وہ بچے کو قتل کردیتا ہے۔
یہ ایک شدید نفسیاتی اور سماجی مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ایسے مشکل دور سے گزر رہے ہیں کہ ہمارے محکمے اور ادارے بوجوہ مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ وجوہات مختلف لکھاری بتاتے رہتے ہیں۔ تدارک کی تجاویز بھی دیتے رہتے ہیں لیکن ’’صدا بہ صحرا۔‘‘
بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کی موجودہ لہر پر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ درسی کتب میں ایسا مواد شامل کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ بچے ایسے لوگوں کے جال میں نہ پھنسیں۔ ایک بڑی بدقسمتی ہماری یہ بھی ہے کہ ہمارا درسی مواد ملک کے چند لوگ بناتے ہیں یاقدیم زمانوں کی اُن درستی کتب کی تیاری میں زیادہ توجہ ’’پیسے کماؤ‘‘ کی طرف ہوتی ہے۔ اور یہ ہمارا نصاب ہی ہے جو قوم کو کمزور رکھ رہا ہے، لیکن بچوں کے ساتھ زیادتی کو درستی کتب میں شامل کرنے سے اس برائی کے مزید بڑھنے کا خطرہ زیادہ ہے۔ بچے میں سیکھنے اور سمجھنے کی قوتیں قدرتی طور پر زیادہ ہوتی ہیں۔ اس لیے وہ سمجھنے کی جستجو میں مزید گمراہ ہوں گے۔ درسی کتب وغیرہ سے یہ موضوع الگ رکھا جائے، تو بہتر ہوگا۔ البتہ نصابِ تعلیم کو مکمل طور پر تبدیل کرنا اور اُسے عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق بنانا بہت ہی ضروری ہے۔ نام نہاد نصاب نویسوں کی جگہ اگرموجودہ اور سابقہ ججز، بیوروکریٹس، جنرلز، جرنلسٹس اور دوسرے تجربہ کار دانشمندوں کی قوتوں کو استعمال کیا جائے، تو بہتر مواد تیار ہوسکے گا۔ موجودہ نظام برائے نصاب تیاری نہ صرف ناکام ثابت ہوچکا ہے بلکہ متنزل بھی ہے۔ آج بھی ہمارے پاس مختلف مضامین نویسوں کے مختلف ایسے جواہر پارے موجود ہیں جن پر مشتمل بہترین نصابِ تعلیم ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس کے لیے ہر قسم کی تنگ نظریوں سے نکلنا پڑے گا۔ کلاس رومز میں سمجھ دار طلبہ عموماً ایسے سوالات کرتے ہیں کہ یہ شیعہ کون لوگ ہیں، دیوبندی کون ہیں، مرزائی کون ہیں، سنی کون لوگ ہیں، اہل حدیث کون ہیں بریلوی کون ہیں؟ وغیرہ۔ ہماری حالت یہ ہے کہ متعلقہ معلومات نہیں رکھتے۔ ہم کھلی مارکیٹ میں مرزائیوں کو تو چھوڑیئے، سید مودودی اور پرویز کی کتابیں نہیں پاتے، جب حدود و قیود اور جبر کا اتنا شدید ماحول ہو، وہاں کون سا مدرس اپنے علم کو وسیع کرسکے گا؟ اُس نے ایک محدود دائرے میں خود بھی بڑھنا ہوتا ہے اور بچوں کو بھی پڑھانا ہوتا ہے۔ یہی سے گھٹن، خاموش بغاوت اور حقیقت پسندی سے فرار کا راستہ اختیار ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس طرح بچے کی ذہنی صحت کے لیے کھیل کود نہایت ہی لازمی ہوتا ہے۔ ہمارا سماجی نظام ایسا ہے کہ بچے تنگ گلیوں اور تاریک گھروں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ بچوں کے کھیلنے کے لیے دس گز زمین بھی مہیا نہیں کرتا۔ سوات فروبیل سکول کے بچے پاس کے ایک ویران قطعۂ زمین پراوچھل کھود کر رہے تھے کہ زمین کے مالک سیٹھ صاحب نے دیکھا اور بچوں کو یہ کہتے ہوئے بھگا دیا کہ یہ تمہارے باپ کی جائیداد نہیں۔ دوسری طرف مذہبی مدارس کی حالت سب کے سامنے ہے۔ وہاں تو کھیل کود کا تصور ہی نہیں، کھلونا رکھنا جرم ہوتا ہے۔ جب بچوں کے لیے صحت مند مشاغل مفقود ہوں، تو اُن میں منفی رجحانات بڑھ جاتے ہیں، جن کے اپنے نتائج ہوتے ہیں۔

بچوں کا جنسی استحصال ایک بین الاقوامی سماجی اور شخصی نفسیات کا مسئلہ ہے۔ (Photo: The Express Tribune)

بچوں کا جنسی استحصال ایک بین الاقوامی سماجی اور شخصی نفسیات کا مسئلہ ہے۔ عیسائیوں کے پوپ صاحب نے حال ہی میں یورپ اور دنیا بھر کے اُن والدین سے کھلی معافی مانگ لی ہے جن کے بچے عیسائی راہبوں کی خواہشوں کا شکار ہوگئے تھے۔ یہ انسانوں کا ایک قدیم جرم ہے لیکن موجودہ دور کے معاشرتی حالات، میڈیا اور جدید اشتہار بازی، فلموں، ڈراموں، لباس کے ’’ترقی پسند‘‘ ڈیزائن، غیر محتاط الفاظ کی گفتگو، بول چال اور حرکات و سکنات انسانوں کی سفلی اور وحشی قوتوں کو متحرک کرتے ہیں۔ ان چیزوں کی بڑے قابل لوگ اور لیڈر اصلاح کرسکتے ہیں۔
محترم رفیق صاحب نے روزنامہ دی نیوز (انگریزی) کے مورخہ بائیس جنوری 2018ء میں اس موضوع پر بہت ہی مفصل مضمون لکھا ہے۔ اُن کے مطابق افریقہ میں 34.4 فی صد، ایشیا میں 23.9 فی صد، امریکہ میں 10.1 فی صد جب کہ یورپ میں 9.2 فی صد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بھارتی معاشرہ اس عذاب کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ وہاں 2 کروڑ 75 لاکھ بچے جنسی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ امریکہ میں ہر 4 میں سے ایک لڑکی اور ہر 6 میں سے 1 لڑکا، برطانیہ میں 20 میں 1 بچہ، مزدور بچوں کا 90 فی صد ایران میں اور سعودی عرب میں ہر چوتھا بچہ جنسی جرم کا شکار ہوتا ہے۔

افریقہ میں 34.4 فی صد، ایشیا میں 23.9 فی صد، امریکہ میں 10.1 فی صد جب کہ یورپ میں 9.2 فی صد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ (Photo: courier-journal.com)

پاکستان میں بھی یہ جرم بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ سات سالوں میں 22528 بچے زیادتی کا شکار ہوئے۔ یہ وہ تعداد ہے جو سامنے آجاتی ہے۔ خاموش رہنے والوں کو ملایا جائے، تو بہت خوفناک صورتحال بن جائے گی۔ 2016ء کے انڈیا میں معلوم شدہ ان جرائم کی تعداد 1 لاکھ 6 ہزار 9 سو 58 رہی۔ ان اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ اس جرم میں ’’سیکس ٹریڈ‘‘ کا اجتماعی کردار شامل ہے۔
گویا کہ یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ البتہ مندرجہ بالا اعداد سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مختلف سماجی پابندیوں کے ممالک مثلاً بھارت اس جرم کا زیادہ شکار ہے۔ مختلف مطالعوں سے معلوم ہوا ہے کہ وہ بچے جو گھروں میں پیار و محبت کی جگہ سختی، ترش روی اور بد زبانی کا شکار ہوتے ہیں، وہ جلدی اُن لوگوں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں جو اُن سے پیار بھری میٹھی بات کر دیتے ہیں۔ اسی طرح معاشروں میں نکاح میں مشکلات، معاشی بدحالی، مایوسیوں اور احساسِ محروم میں اضافے ان قسم کے جرائم کو بڑھاتے ہیں۔ جدید میڈیا خصوصاً اشتہار بازی، انٹرنیٹ اور موبائل فونز کی تباہ کاریاں اس ظلم میں اضافے کے اسباب ہیں۔ اس مسئلے کو کم سے کم کرنے کے لیے اجتماعی محنت کی ضرورت ہے اور وہ کہیں بھی موجود نہیں۔

………………………………………….

لفظونہ انتطامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔