پراچہ اپنے حسب و نسب کے تناظر میں

خواجہ، پراچہ اور بیوپار کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے جس نے ان کا رشتہ کسب کی حسبی حیثیت سے زیادہ نسبی شکل میں ظاہر کیا ہے۔ حالاں کہ کوئی پیشہ ایسا نہیں جس سے انسانی قومیں تشکیل پاتی ہوں۔ یعنی نسلی پہچان الگ چیز ہے اور کسبی یا حسبی حیثیت الگ وقعت رکھتی ہے۔ مثلاً دُنیا کے سب سے بڑے کاروباری یہودیوں کی نسل یا قوم اسرائیل ہے جبکہ اُن کا کاروبار تجارت ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ہر فن، ہنر اور کاروبار انسان کی حسبی پہچان ہے نہ کہ نسبی۔
آمدم برسرِ مطلب، لفظ پراچہ فارسی لفظ پارچہ (کپڑا) سے ماخذ ہے جو پارچہ فروش، پرانے کپڑے فروخت کرنے والا یا گودڑ بیچنے والا کے معنوں میں مستعمل ہے۔ اس سے ملتا جلتا لفظ ’’پراچین‘‘ ہے جو سنسکرت زبان میں قدیم اور پرانے کے معنی دیتا ہے جبکہ ایک زبان ’’پراچی‘‘ بھی ہے جو ترکستان کے وسطی ایشیائی ممالک اور ایران وا فغانستان کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی تھی، جس سے پراچہ کی بحیثیت قوم نمائندگی ہوسکتی ہے۔ کہنے میں آیا ہے کہ وہ لوگ اپنے مرکز سے نکل کر دوردراز ممالک میں تجارت کرتے تھے۔ اس لیے ’’پراچی‘‘ کا ’’پراچہ‘‘ اور ’’پراچہ‘‘ کا ’’پراچی‘‘ سے نسلی یا قومی نسبت ہونا قرین قیاس نہیں ہے۔ ممکن ہے وہ اپنے آبائی وطن سے دوری کے باعث اپنی زبان بھول چکے ہوں۔ اُن کی نسبی پہچان، حسبیت میں بدل چکی ہو اور بعد میں لفظ ’’پراچہ‘‘ تجارت پیشہ لوگوں سے منسوب ہوچکا ہو۔ اس کے علاوہ شیخ اور خواجہ کے الفاظ بھی اگرچہ تجارت پیشہ لوگوں سے متعلق ہیں لیکن قاری کو مزید لسانی تجزیوں میں الجھانا مناسب نہیں ہے۔ لہٰذا اس موضوع کو راقم کسی اور موقع محل کے لیے چھوڑتا ہے۔ حاصل بحث یہ کہ ہمارے ہاں تاجر، بیوپاری، سوداگر، سیٹھ اور خچروں پر کاروبار کرنے والوں کو ’’پراچکان‘‘ کہتے ہیں، جن میں خوانچے والے بنجارے سے لے کر بزنس ٹائکون تک کے تمام مرچنٹس شامل ہیں۔

لفظ پراچہ فارسی لفظ پارچہ (کپڑا) سے ماخذ ہے جو پارچہ فروش، پرانے کپڑے فروخت کرنے والا یا گودڑ بیچنے والا کے معنوں میں مستعمل ہے۔ (Photo: BBC)

لیکن ایلن ویارو اور ڈاکٹر انعام الرحیم، پراچہ کے کسب اور کاروبار کے حوالے سے دو قسم بتاتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب’’ سوات سماجی جغرافیہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ایک بیرونی پراچہ، یعنی زیادہ فاصلے کے لیے جو قصبے سے سامانِ تجارت لاتے اور لے جاتے ہیں جبکہ دوسرا اندرونی پراچہ ہے، جو گاؤں کے اندر رہتا ہے اور گاؤں کے اندر چیزوں کی ترسیل کرتا ہے۔‘‘ لمبے فاصلے کے کاروبار کرنے والے پراچہ لوگ بیسیویں صدی کے آغاز تک گلگت، چترال، مردان اور پشاور وغیرہ کے درمیان نمک، گڑ، مصالحے، خشک میوے، شہد، دیسی گھی اور ادویائی جڑی بوٹیوں وغیرہ کی ترسیل کاکام کرتے تھے۔ اس ضمن میں انگریز پولی ٹیکل ایجنٹ مہک موہن کہتے ہیں کہ ــ’’ تجارت کا مال اور کاروبار عموماً خٹک اور پراچکان کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

لمبے فاصلے والے پراچکان کی مزید دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو اپنا مال اپنے خچروں پر لاد کر لاتے اور لے جاتے ہیں جبکہ دوسرے وہ تھے جو اپنے خچروں کو بطورِ ٹرانسپورٹ استعمال کرتے تھے۔ برہ درشخیلہ کے ایک معزز شخص ملک زادہ اپنے پُرکھوں کے بارے بیان کرتے ہیں کہ اُن کے دادا اور پردادا دوسروں کا تجارتی مال اپنے خچروں پر چین، تاشقند، افغانستان اور دوردراز ممالک تک لے جاتے تھے۔ وہ شناختی کارڈ کی عدم دستیابی کے باعث جیب میں پرچی رکھتے تھے، جس پر اُن کا پتا لکھا جاتا تھا، تاکہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آنے یا مرنے کی صورت میں اُن کی شناخت ہوسکے۔ اس طرح یہ لوگ صدیوں سے تجارت کرتے چلے آئے ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے تقسیمِ اراضی کے بکھیڑوں، کوچی ویش، قبیلوی جنگوں اور جرگہ سیاست سے قطع تعلق کرکے تجارت اور کاروبار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا۔ اس لیے ان کی گرفت تجارت پر مضبوط ہوچکی تھی۔

لمبے فاصلے والے پراچکان کی مزید دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو اپنا مال اپنے خچروں پر لاد کر لاتے اور لے جاتے ہیں جبکہ دوسرے وہ تھے جو اپنے خچروں کو بطورِ ٹرانسپورٹ استعمال کرتے تھے۔ (Photo: commons.wikimedia.org)

اس ضمن میں میجر راورٹی کے ایلچی جو 1858ء کو سوات آئے تھے۔ اپنے دورے کی رپورٹ میں کہتے ہیں کہ ’’خوازخیلہ اور یہاں سے شروع ہوکر سارے درے کے تجارتی لوگ پراچکان ہیں۔ دُکانیں بھی ان کی اپنی ہیں۔‘‘ گاؤں کے اندر رہنے والا پراچہ جو اندرونی پراچہ کہلاتا ہے، اس کاکام گھروں کی دیواروں اور چھتوں پر مٹی کی تہہ چڑھانے کے لیے مٹی لانا، پن چکیوں تک غلے کی رسائی کرنا اور واپس لانا، کھیتوں کو ’’ڈیرانی کھاد‘‘ پہنچانے کے لیے خچر فراہم کرنا اورسب سے اہم کام کھیت میں کھلیان سے غلے کا ڈھیر گھروں تک لے جانا تھا، جس میں وہ اپنی مزدوری بقدرِ جنس فصل یا غلے کی شکل میں زمینداروں سے وصول کرتاتھا۔ یہ لوگ انتہائی محنتی اور جفا کش مشہور ہیں۔ پہلے جب یہ لو گ فصلِ ربیع اور فصلِ خریف سے فارغ ہوجاتے تھے، تو محنت مزدوری کی خاطر خچروں پر سلیپر اور پتھر وغیرہ دور دور تک لے جاتے تھے۔ خصوصاً جاڑوں میں جنگل سے ٹولیوں کی صورت میں خچروں پر سوختنی لکڑیاں لے آتے تھے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ اپنے ان خچروں کا خوب بناؤ سنگار کرکے اسے سیروتفریح یا شادی بیاہ کے موقعوں پر باراتیوں کے جلوس میں دوڑاتے تھے۔ کتنا دلنشین اور دلچسپ منظر ہوتا ہوگا وہ، جسے اب تصور کی آنکھ سے ہی دیکھنا ممکن ہے۔ علاوہ ازیں یہ بہت سادہ اور ملنسار لوگ ہیں۔ اگرچہ ان کے مابین معاشرتی حیثیت کا پیمانہ نقد مال اور امارت ہے، لیکن یہ لوگ دوسروں کے مقابلے میں اپنی برادری کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپس میں رشتے کرتے ہیں اور دور دور تک اُسے پالتے بھی ہیں۔اس طرح مالدار تجارت پیشہ لوگ اپنے نوکروں اور ماتحتوں کے ساتھ رحم دِلانہ اور بہتر انسانی رویہ رکھتے ہیں۔ اُنہیں اپنے گھر کے افراد کی طرح پالتے ہیں اور جو نوکر اُن کے ساتھ اپنی وفاداری نبھاتے ہیں، اُن کے کاروبار بنانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کے ساتھ رشتہ داری کا بندھن بھی باندھتے ہیں، جس کی مثال ہمارے گاؤں میں موجود ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اُن کا نسب بھی ایک نہیں ہوتا۔
وکیل خیرالحکیم حکیم زئے اپنی کتاب ’’د برسوات تاریخ‘‘ میں درشخیلہ کے پراچکان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’درشخیلہ میں ان کی نسل ایک نہیں ہے۔ خون، نسل اور رنگ کے اعتبار سے ان میں فرق ہے۔ لیکن تقریباً سب کا حسب ایک ہونے کی وجہ سے یہ لوگ ایک دوسرے کے قریب ہیں۔‘‘
ہر چند کہ جدید تجارتی منڈی کے رجحانات اور تقاضے بدل رہے ہیں اور ہر طائفے کے لوگ بازاریت کی طرف مائل ہورہے ہیں، لیکن تا حال اِن کا تجارت پر راج ہے۔ کیوں کہ یہ لوگ نہ صرف حد درجہ ذہین ہیں بلکہ نئے بدلتے ہوئے حالات اور مستقبل کے چیلنجوں کے لیے تیار رہنے کی بھی خوب صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید تعلیم کے حصول، دینی علوم پر دسترس رکھنا اور اعلیٰ سیاسی و سماجی رتبے پانا ان کی اَنتھک محنت کا ثمرہے۔ تبھی تو چیف جسٹس آف پاکستان کے اعلیٰ مرتبے سے لے کر تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی میں ان کے افراد موجود ہیں۔ خصوصاً تعلیم اور صحت کے شعبے تو گویا ان کے لیے بنے ہیں۔ غرض ان میں سیٹھ اسماعیل اور حاجی غلام سرور لالا کی طرح مالدار، محمد شفیق استاد صاحب کی طرح خداترس، حکیم سید محمد کی طرح پرہیز گار اور حاجی فضل قوی کی طرح ہوشیار اور ذہین لوگوں کی کمی نہیں ہے۔
ان کے بارے میں میاں گل عبدالودود باچا صاحب کی کتاب کا یہ متن کافی ہے کہ ’’ پراچہ مختلف قصبات، دیہات باالخصوص شہر منگورہ میں آباد ہیں۔ یہ تجارت پیشہ لوگ ہیں اور سوات کی تجارت پر یہی لوگ حاوی ہیں، جو پُرامن رہنے والے مہذب شہری ہیں۔ آسودہ حال اور مالدار بھی ہیں۔ نماز، روزہ اور حج کے یہ لوگ نسبتاً زیادہ پابند ہوتے ہیں۔‘‘

…………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔