ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان خفیہ معاہدہ

’’اِک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت سے پوری طرح متاثر ہو کر اکثر اوقات کارکنان یہ نعرہ دہراتے ہیں، مگر زرداری اس نعرہ سے اپنے کارکنوں کو منع کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ پاکستانی عوام کو ہر معاملہ میں ہر چیز سے بے خبر رکھناچاہتے ہیں، لیکن مختلف جدید ذرائع نے دیوار کے اندر ہونے والی گفتگو کو بھی نکال باہر کیا ہے جس کی رو سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان حالیہ خفیہ معاہدہ طے پا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق معاہدہ ’’تجدیدِ میشاق جمہوریت‘‘ کے نام سے طے پایا جس میں مسلم لیگ نواز کے سرکردہ راہنماؤں کا زرداری سے خفیہ ملاقات میں معاہدہ طے پایا ہے۔ معاہدہ کے مطابق تحریک انصاف کا راستہ رو کنے کے لیے دونوں جماعتوں میں مکمل اتفاق ہوا ہے اور اس کے لیے یہ طے پایا ہے کہ پیپلز پارٹی آئندہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کے خلاف بھرپور انداز میں اختلافی بیانات جاری کرتی رہے گی جس سے یہ تاثر دیا جائے گا کہ نواز لیگ کی سب سے بڑی مخالف جماعت پیپلزپارٹی ہے۔ اس کے مدمقابل ن لیگ بھی جوابی مخالف پر مبنی بیانات جاری کرکے عوام کو یہ تاثر دے گی کہ دونوں جما عتوں کا جو ووٹ بنک تحریک انصاف کے پلڑے میں جا رہا ہے، اس کو روکا جاسکے اور آئندہ الیکشن میں کوشش کی جائے گی کہ پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ سیٹیں دلوائی جاسکیں اور اگرتحریک انصاف الیکشن میں کامیاب ہو بھی جائے، تو اس کے پاس سادہ اکثریت آئے۔ ا ن کی حکومت کو چھے سات ما ہ سے زیادہ چلنے نہ دیا جائے۔ کیوں کہ اگر تحریک انصاف نے کرپشن کا نعرہ لگا کر عوامی دباؤ پر احتساب شروع کر دیا، تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس کی زد میں آئے گی اور دونوں پارٹیوں کواپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

معاہدہ ’’تجدیدِ میشاق جمہوریت‘‘ کے نام سے طے پایا ہے۔ اس کے مطابق تحریک انصاف کا راستہ رو کنے کے لیے دونوں جماعتوں میں مکمل اتفاق ہوا ہے۔ (Photo: geo.tv)

لہٰذا طے یہ پایا ہے کہ دونوں جماعتیں ایسے حالات پیدا کریں گی کہ تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے عمران خان کے خلاف آئے روز کوئی نہ کوئی سکینڈل منظر عام پر لایا جائے۔ اس لیے عائشہ گلالئی کی طرح اور کردار بھی سامنے لانے پر اتفاق ہوا ہے۔

طے یہ پایا ہے کہ دونوں جماعتیں ایسے حالات پیدا کریں گی کہ تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے عمران خان کے خلاف آئے روز کوئی نہ کوئی سکینڈل منظر عام پر لایا جائے۔ (Photo: Siasat.pk)

خفیہ معاہدہ میں طے پاگیا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں نواز لیگ کی برتری لانے کے لیے پیپلز پارٹی مکمل تعاون کرے گی، تاکہ تحریک انصاف کا دونوں ایوانوں میں بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔ خفیہ معاہدہ میں سب سے خطرناک پلان جو طے پایا ہے، وہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے مخصوص لوگ جو ایم این اے یا ایم پی اے بننے کی اہلیت رکھتے ہیں، ان کو تحریک انصاف میں بھیجا جائے گا، جو تحریک انصاف میں رہ کراس کو اندر سے کھوکھلا کریں گے، جس طرح نواز لیگ نے جاوید ہاشمی کو خصوصی پلان پر بھیجا تھا۔
معاہدہ میں یہ بھی طے پایا ہے کہ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی خفیہ تعلقات برقرار رکھے جائیں گے اور الطاف حسین سے درپردہ رابطہ جاری رہے گا۔
بقولِ ڈاکٹر شاہد مسعود پیپلز مسلم موومنٹ، سہ جماعتی اتحاد قائم ہے جس کو ڈاکٹر صاحب یہ نام دے رہے ہیں۔ اے این پی کہاں کھڑی ہے؟ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم آئندہ مولانا فضل الرحمن اپنا وزن مسلم لیگ ن کے بجائے پیپلز پارٹی کے پلڑے میں ڈالیں گے۔ انتظار صرف یہ ہے کہ فاٹا کو صوبہ پختون خوا میں ضم کیا جاتا ہے یا نہیں۔ دوسرا اورینج لائن ٹرین منصوبہ کی زد میں آنے والے مولانا کے مدرسے کے متبادل پنجاب یونیورسٹی کا گراؤند پنجاب گورنمنٹ کب ان کے نام کرتی ہے۔ اگر یہ دونوں کام نہیں ہوتے، تو مولانان لیگ کے خلاف کھلم کھلا مخالفت کا آغاز کر دیں گے اور راہیں جدا کر لیں گے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں جماعتوں کی ایک کو شش یہ بھی ہو گی کہ آئندہ الیکشن کو جتنا لیٹ کیا جا سکتا ہے، کیا جائے۔ یہ دونوں جماعتوں کے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ کیوں کہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت عروج پر ہے۔ اس کو کم کرنے کے مختلف پلان تیار کیے جا رہے ہیں جس میں ایک غیر ملکی دوشیزہ کی خدمات بھی لی جا سکتی ہیں جس کو پاکستان لانے کے لیے پلان تیار کیا جائے گا، جو سیتا وائٹ ٹائپ کا کوئی کردار ادا کرے گی۔ اس سازش کا آغاز ہو چکا ہے۔ دوسری طرف خاور مانیکا کی سابق اہلیہ بشریٰ بی بی جو کہ ایک روحانی شخصیت بتائی جا رہی ہیں، ان سے عمران خان کی تیسری شادی کی خبر جیو اور جنگ گروپ نے میڈیا پر لا کر عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف پروپیگنڈے کا آغازکر دیا ہے، تاکہ عمران خان کی شہرت کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ شادی ہر ایک انسان کا پرسنل معاملہ ہے، لیکن اسے میڈیا پر لے جاکر پروپیگنڈا کرنا کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔ اگرچہ اس واقعے کی تردید اس کالم کے فائل کرنے تک خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کے بیٹے اور تحریک انصاف کے ترجما ن نے بھی کی ہے۔

مولانا فضل الرحمن اپنا وزن مسلم لیگ ن کے بجائے پیپلز پارٹی کے پلڑے میں ڈالیں گے۔

نواز شریف کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کو فرنٹ لائن پر لانے کا اصرار کیا گیا ہے، اور زرداری کو کہا گیا ہے کہ کیوں کہ کرپشن کے حوالے سے ان کی ساکھ عوامی سطح پر خراب ہے۔ لہٰذا وہ پیچھے رہے اور بلاول کوہی زیادہ بولنے کا موقع دیں۔
اب نوا ز لیگ اور پیپلز پارٹی کا یہ خفیہ معاہدہ کس قدر کارگر ہو تا ہے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم دونوں سیاسی جماعتیں اپنی کرپشن بچانے کیلئے ایک پیج پر ہیں اور نورا کشتی کا کھیل دونوں پارٹیوں کی مشاورت سے بھرپور جاری رہے گا۔ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی عوام کو بیوقوف بنانے کا سیاسی حربہ ہو گی۔ اب عوام دونوں سیاسی جماعتوں کو آئندہ الیکشن میں کہاں کھڑا کرتے ہیں؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ ’’زرداری اب کتنا بھاری ثابت ہوتا ہے۔‘‘

………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔