او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن) تمام57 اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے۔ 21 اگست 1969ء کو جب مسجد الاقصیٰ میں آگ لگی یا لگائی گئی، تو اس وقت کے فلسطینی مفتی اعظم امین الحسینی نے اسے یہودی جرم قرار دیا اور اسلامی ممالک کے سربراہان سے مطالبہ کر دیا کہ وہ اسلامی دنیا کو درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے اکھٹے لائحہ عمل طے کریں۔ اس مطالبے کے بعد 25 ستمبر 1969ء کو 24 اسلامی ممالک کے سربراہان نے رباط، مراکش میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ معاشی، سائنسی، ثقافتی اور اسلامی برادرانہ تعلقات کو فروغ دیں گے۔ اس کے بعد وزرائے خارجہ کی میٹنگ کے بعد 1972ء کو او آئی سی کی بنیاد رکھی گئی۔ شروع شروع میں اس تنظیم سے کافی توقعات وابستہ کی گئی تھیں اور 1974ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس ایک بہت ہی کامیاب کانفرنس ٹھہری تھی لیکن بدقسمتی سے اس کانفرنس کی روحِ رواں شخصیات ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل کو ایک سوچھی سمجھی سازش کے تحت یکے بعد دیگرے منظرنامہ سے ہٹایا گیا۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک او آئی سی تنظیم ’’آئی سی یو‘‘ کی ’’وینٹی لیٹر‘‘ پر پڑی ہوئی ہے اور بیانات کے علاوہ کوئی قابل ذکر کام اس کی تاریخ میں درج نہیں ہے۔
جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ پہلی قرارداد میں، جس کی بنیاد پر او آئی سی کی بنیاد رکھی گئی تھی، میں معاشی، سائنسی اور ثقافتی تعاون کے فروغ پر زور دیا گیا تھا، لیکن اسے ہماری کم نصیبی ہی سمجھ لیں کہ اس ضمن میں سائنسی تعاون کی پہلی سربراہی کانفرنس ستمبر 2017ء میں قازقستان کے شہر آستانہ میں منعقد ہوئی۔ پھر بھی دیر آید درست آید کے مصداق اس کانفرنس میں او آئی سی ممبر ممالک کی سائنسی صلاحیتوں سے مشترکہ فائدہ اٹھانے پر اتفاق کیا گیا۔ مجھے تو افسوس اس بات کا ہے کہ ہر ملک کے اکیلے سفر طے کرنے سے کسی بھی اسلامی ملک کی کوئی بھی یونیورسٹی صف اوّل کی فہرست میں اب تک جگہ نہیں بنا سکی ہے اور ایک آدھ نوبیل انعام کے علاوہ کوئی بھی مسلم سائنس دان آج کل کے زمانے میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکا ہے۔
ہم جب او آئی سی کے فورم سے اتفاق و اتحاد کا ذکر کرتے ہیں، تو فوراً ہی ایران اور سعودی عرب کے اختلافات ہمارے سامنے آجاتے ہیں جو صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں اور اس آگ نے یمن، عراق، شام اور لبنان سمیت تقریباً پوری مسلم اُمّہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ باہر کے دشمن کے بجائے گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگی ہوئی ہے۔ اگر یورپ کے ممالک ہزاروں سال کی لڑائیاں اور اختلافات بھلا کر اکھٹے رہ سکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں رہ سکتے؟ ہمارا مذہب تو امن پسندی کا درس سب سے زیادہ دیتا ہے۔ آپ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مسلم ممالک جن براعظموں میں واقع ہے، ان کے نام مغربی دانشوروں نے رکھے ہیں۔ ان ممالک نے کبھی اجتماعی سوچ کی کوشش کی ہی نہیں ہے اور ہم اگر آج اس خطے کو ایشیا یا ساتھ میں واقع افریقہ کو ان ناموں سے بلاتے ہیں، تو یہ ہمیں یوروپ والوں کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
جب او آئی سی کا نام ہمارے ذہن میں آتا ہے، تو ہم فوراً سوچتے ہیں کہ ہمیں کوئی اکھٹی فوج بنانی چاہئے اور اکھٹی جنگیں وغیرہ لڑنی چاہئیں۔ ارے بھئی، اس سے آگے سوچئے۔ اتحاد صرف عسکری نہیں ہوتے۔ اتحاد معاشی اور سائنس کے میدان میں بھی ہوتے ہیں۔ اگر او آئی سی اپنے ممبر ممالک میں یوروپ کی طرز پر ایک ہی کرنسی نافذ کردیں، اگر تمام اسلامی ممالک ایک دوسرے کیلئے وسائل کے دروازے کھول دیں، اگر ہم ایک دوسرے کے ہاں اپنی علاقائی اور ملکی ثقافتیں اجاگر کریں، تو آپ لوگ خود سوچیں کہ اس سے ہمارے مسائل کس حد تک اور کتنے جلدی حل ہو سکتے ہیں۔ اگر صرف ’’اسلامی بھائی چارے‘‘ پر انحصار کرنے کے بجائے ہم سائنسی اور اقتصادی بھائی چارہ بھی قائم کریں، تو بات آگے بڑھے گی۔ ورنہ ہمارا یہ سفر گول دائرے تک ہی محدود رہے گا۔
میاں محمد نواز شریف اپنے دوسرے وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ترکی کے دورے پر تھے، تو ملاقات میں میاں صاحب ترکی کے وزیر اعظم ’’میسوت یلمِز‘‘ کو بار بار اسلامی بھائی چارے، تحریکِ خلافت میں ترکی کے سپورٹ وغیرہ پر بات کر رہے تھے۔ جب کچھ وقت تک بات ایسے ہی چلتی رہی، تو میسوت یلمز نے میاں صاب سے کہا کہ اسلامی بھائی چارے کے علاوہ اگر آپ کے پاس اقتصادی یا دیگر موضوعات پر ترکی اور پاکستان کے فائدے کے بارے میں کچھ منصوبے ہیں، تو اس پر بات کریں؟ یہ سن میاں صاحب ناراض ہوگئے اور ملاقات ناخوشگوار موڈ میں ختم ہوئی (یہ واقعہ سعید مہدی، اس وقت وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے نقل کیا ہے)۔ اس واقعے سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ اگر ہم نے اپنی غربت ختم کرنی ہے، اگر ہم نے ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دے کر ذہنی فاصلے مٹانے ہیں، اور اگر ہم نے اپنی یونیورسٹیوں کو ٹاپ پوزیشنز تک لانا ہے، اگر ہم نے او آئی سی کو ’’آئی سی یو‘‘سے نکال کر توانا بنانا ہے، تو ہمیں تمام اختلافات کو ختم کرکے اکھٹے بڑھنا ہوگا۔ کیوں کہ ’’برنارڈ رسل‘‘ کے بقول ’’وہ واحد چیز جو بنی نوع انسان کو مکمل کرسکتی ہے، وہ باہمی اتفاق و اتحاد سے آگے بڑھنا ہے۔‘‘ اور بقول شاعر
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔