پاکستان کا سیاسی منظرنامہ اب نظریات کا میدان نہیں رہا، یہ شخصیات کے گرد گھومتے تنازعات کا ایک ہنگامہ بن چکا ہے، جہاں اُصول، اخلاق اور استدلال کی کوئی مستقل بنیاد باقی نہیں رہی۔ ہر جماعت اپنی پسندیدہ شخصیت کو حق اور اپنے مخالف کو باطل قرار دینے میں اس قدر آگے جا چکی ہے کہ سچ کا چہرہ بھی اب دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ اس سارے بحران کا جو سب سے بھیانک پہلو اُبھر کر سامنے آیا ہے، وہ درست اور زیادتی کے پیمانوں کی مکمل تباہی ہے۔
آج ہماری سیاست کا حال یہ ہے کہ ایک ہی لفظ، ایک ہی الزام، ایک ہی عمل اگر ہمارے راہ نما کی طرف سے ہو، تو دانش، جرأت اور حق کی فتح سمجھا جاتا ہے؛ لیکن اگر وہی عمل مخالف کی طرف سے آئے، تو وہ بدتمیزی، ظلم اور زیادتی بن جاتا ہے۔ یوں ریاستی، سیاسی اور سماجی اخلاقیات کا جنازہ روزانہ اس دوہرے معیار کی لاٹھیوں کے نیچے نکلتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب ایک راہ نما اپنے مخالف کو ذہنی مریض کہتا ہے، تو اس کے کارکن اور حمایتی اُسے حقیقت کی بے لاگ ترجمانی کہتے ہیں…… لیکن جب اسی راہ نما کے بارے میں وہی لفظ پلٹ کر کہا جائے، تو اسے بے ادبی اور زیادتی کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ وہ ننگی حقیقت ہے، جسے دیکھ کر ہمیں مان لینا چاہیے کہ ہم اُصولوں کے پیروکار نہیں رہے۔ ہم صرف چہروں کے غلام بن چکے ہیں۔
کرپشن کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ جب عمران خان، نواز شریف یا آصف زرداری کو کرپٹ کہتے ہیں، تو یہ قوم کے لیے سچائی کا نعرہ بن جاتا ہے؛ لیکن جب اُسی عمران خان پر کرپشن کے حوالے سے سوال اُٹھایا جاتا ہے، تو اس پر طنز نہیں، غداری کا مقدمہ بن جاتا ہے۔ اسے سیاسی انتقام کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے اور ہر وہ آواز جو سوال اُٹھائے ، فوراً ’’بِکا ہوا‘‘، ’’لفافہ‘‘ یا ’’ایجنٹ‘‘ قرار دی جاتی ہے۔ یہ در اصل وہ سیاسی تضاد ہے، جو صرف بیانئے کی کم زوری نہیں، بل کہ ایک اجتماعی ذہنی بیماری کی علامت ہے۔
یہی تضاد خواتین کے احترام کے معاملے میں بھی نظر آتا ہے۔ ہمارے سیاسی حلقوں میں بدقسمتی سے خواتین کی تذلیل ایک عام ہتھیار بن چکی ہے، مگر اس کا مزاج بھی اپنی پسند کے مطابق بدل دیا جاتا ہے۔ جب عمران خان کی جانب سے مخالف خواتین کے خلاف غلیظ مہم چلائی گئی، تو اسے سیاسی ردِ عمل قرار دیا گیا…… لیکن اُنھیں کے حلقے کی کسی خاتون پر کوئی بات کَہ دی جائے، تو اسے ناقابلِ معافی جرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کیا اخلاقیات کا کوئی ایسا معیار بھی ہوتا ہے، جو پسندیدہ شخصیت پر آکر بدل جائے؟
فوج کے بارے میں بھی یہی دوہرا رویہ اپنایا جاتا رہا۔ جب ایک راہ نما کسی جرنیل کو ’’قوم کا باپ‘‘ کہے اور عسکری قیادت کو اپنا ’’سیاسی سہارا‘‘ بنائے، تو اُسے حب الوطنی کہا جاتا ہے، لیکن جب مخالفین وہی راستہ اختیار کریں، تو اسے سازش اور غداری قرار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سا اُصول ہے، جو ایک راہ نما کے لیے جائز اور دوسرے کے لیے ناجائز ہوجاتا ہے؟ اگر فوج کی حمایت، سیاسی طاقت کا سہارا ہے، تو سب کے لیے یک ساں ہونا چاہیے…… اور اگر یہ غلط ہے، تو سب کے لیے غلط ہونا چاہیے، مگر ہماری سیاست میں اُصول، شخصیت کی ضرورت سے جنم لیتے ہیں۔
یہی رویہ دھاندلی کے معاملے میں بھی کھل کر سامنے آتا ہے۔ جب عمران خان 2018ء میں اقتدار میں لائے گئے، تو اسے قوم کی خوش قسمتی کہا گیا…… مگر جب وہی طریقہ کسی اور جماعت کے حق میں استعمال ہوا، تو اسے ’’سقوطِ جمہوریت‘‘ قرار دیا گیا۔ کیا دھاندلی کا کوئی ایسا آئینی تصور بھی ہوتا ہے، جو ایک شخص کے لیے جائز اور دوسرے کے لیے ناجائز ہو؟ اگر نہیں، تو پھر ہم یہ تضاد کیوں پالے بیٹھے ہیں؟
صحافت جو کسی بھی معاشرے کی آنکھ ہوتی ہے، اسے بھی اسی دوہرے معیار نے اندھا کرنے کی کوشش کی۔ وہ صحافی جو عمران خان کے بیانیے کی حمایت کریں، وہ محب وطن اور غیرت مند کہلائیں؛ مگر وہی صحافی اگر اختلافِ رائے کا اظہار کریں، تو یک دم ’’لفافہ‘‘، ’’غدار‘‘ اور ’’بِکا ہوا‘‘ بن جاتے ہیں۔
یہ تقسیم صرف ایک جماعت کا عمل نہیں، پوری سیاسی ثقافت میں سرایت کر چکی ہے۔ یہ سارے تضادات ایک ہی سوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کیا ہم اُصولوں کی سیاست کرتے ہیں یا شخصیات کی پوجا؟ اگر درست اور غلط کے ترازو ہی بدل دیے جائیں، اگر ایک شخص کے لیے سچ اور دوسرے کے لیے جھوٹ کا معیار الگ ہو، اگر اخلاقیات سیاسی فائدے کے مطابق بدلتی رہے، تو پھر قومیں اخلاقی اور فکری طور پر تباہ ہوجاتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جہاں معیار مستقل نہ ہوں، وہاں انصاف بھی نہیں ہوتا، جمہوریت بھی نہیں ہوتی اور وہاں سچ بھی مسخ ہو جاتا ہے۔ ایسے معاشرے اپنے لیڈروں کا نہیں، اپنے تضادات کا شکار ہوتے ہیں۔ آج پاکستان اسی دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہر جماعت، ہر کارکن اور ہر بیانیہ اپنی پسند کے ترازو میں وزن کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب کوئی اُصول باقی رہا ہے، نہ کوئی اخلاقی ستون اور نہ کوئی سچ ہی ایسا ہے، جو سب کے لیے یک ساں ہو۔ اگر ہمارا درست اور زیادتی کا معیار ہی موجود نہیں، تو سمجھ لیجیے کہ یا تو جو درست ہے، وہ بھی زیادتی ہے ، یا پھر جو زیادتی ہے، وہ بھی ہمارے اندر درست کے طور پر قبول ہوچکی ہے۔ جو قومیں سچ چھوڑ دیں، وہ منزل پر نہیں پہنچتیں۔وہ بھٹکتے بھٹکتے بکھر جاتی ہیں۔
یہ اب وقت کی ضرورت ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنے رویوں میں سنجیدگی لائیں۔ دنیا تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، قومیں آگے بڑھ رہی ہیں، نظام بہتر ہو رہے ہیں اور علم و فہم کا چراغ ہر سمت روشن ہو رہا ہے…… مگر ہم ہیں کہ ملک و قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کے بہ جائے آج بھی ایک دوسرے کی تذلیل، کردار کشی اور ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہیں۔ یہ روش نئی نہیں،گذشتہ 75 برس سے یہی کھیل جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب اس کھینچا تانی کی دلدل سے نکلیں گے؟ کب ہم ذاتی دشمنیوں اور سیاسی انتقام سے بالاتر ہوکر اپنے وطن کے لیے سوچیں گے اور کب اپنی قوم کو ترقی اور استحکام کی شاہ راہ پر ڈالیں گے؟
قومیں اپنے مستقبل کے لیے متحد ہوتی ہیں، تقسیم ہو کر کسی بھی قوم نے ترقی نہیں پائی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










