طاقت کا کالا بازار (دروغ بر گردنِ راوی)

Blogger Sajid Aman

بڑا سنتے آئے ہیں کہ تھانے بکتے ہیں، ایس ایچ اُوز پیسے دے کر پوسٹنگ لیتے ہیں۔ ایک مخصوص ’’تھانہ کلچر‘‘ ہوتا ہے اوپر خدا، نیچے ایس ایچ اُو مالک ہے۔ جسے چاہے عزت دے ، جسے چاہے ذلیل کرے۔ ایس ایچ اُو کے پاس وہ سارے اختیارات ہوتے ہیں کہ اگر اُس میں فرعونیت نہ ہو، دبنگ نہ کہلائے، لوڈڈ نہ لگے، اپنی مرضی نہ چلائے، انڈین فلموں کے غنڈوں کی طرح میز پر ہاتھ نہ مارے اور سامنے پستول نہ رکھے، تو گویا وہ ایس ایچ اُو ہی نہیں رہتا۔
قارئین! اب یہ باتیں سچ ہیں یا جھوٹ…… یہ باتیں دراصل پرانی بھی ہیں اور عام بھی۔ جس نے تھانہ کلچر دیکھا نہ ہو، وہ بھی تصدیق ضرور کرے گا۔ کیوں کہ تاثر یہی چلتا آرہا ہے۔
دروغ بر گردنِ راوی، سنا ہے کہ اب چیف سیکرٹری کی پوسٹ بھی کچھ ایسی ہی ہوگئی ہے، جیسے کبھی ایس ایچ اُو کی ہوا کرتی تھی۔ حالاں کہ ہمیں معلوم ہے کہ ایک زمانہ تھا، جب سب سے لائق، تجربہ کار اور ایمان دار افسر ہی چیف سیکرٹری ہوا کرتا تھا……حکومت کا اصل سربراہ۔
لوگ کہتے تھے کہ چیف سیکرٹری وہ ہوتا ہے، جو صوبے کا سب سے محنتی، باخبر اور شفاف افسر ہو۔ کہیں ڈی سی، کمشنر یا کوئی انتظامی افسر لگانا ہو، تو اس کے لیے چیف سیکرٹری کے سخت انٹرویو کا سامنا کرنا پڑتا۔ مراحل مشکل ہوتے اور اُمیدوار کو ثابت کرنا پڑتا کہ وہ ڈویژن، ضلع یا تحصیل کو سنبھالنے کے قابل ہے۔
وقت بہ ہرحال یک ساں نہیں رہتا۔ پھر زمانہ پلٹا، کئی تبدیلیاں آئیں۔ یہاں تک کہ کَہ دیا گیا: ’’ہم کوئی غلام ہیں……!‘‘ اب سنا ہے کہ وزیرِ اعلا ضد کرکے اپنی پسند کا چیف سیکرٹری لگواتا ہے۔ اور چیف سیکرٹری بھی وہی بندہ لگتا ہے، جو خدا اور قانون نہیں، بل کہ وزیرِ اعلا کی مانے۔
مزید کہا جاتا ہے کہ علاقے کا ایم پی اے، افسروں کا انٹرویو لیتا ہے۔ ایم پی اے اپنے اہداف بتاتا ہے، جو یقینا کرپشن کے گرد گھومتے ہیں۔ مختلف افسر آتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ وہ کتنا گرسکتے ہیں۔ سب سے نیچے گرے ہوئے کو اُٹھا کر گلے سے لگایا جاتا ہے اور اُسے مسند دے دی جاتی ہے۔ پھر افسر کے پاس موقع ہوتا ہے کہ ’’ضمیر‘‘ نامی بدبخت کو حرکت دینے نہ دے؛ انصاف رُک جائے ، عوام کی تذلیل معمول بن جائے اور سرکاری وسائل کے ضیاع کی ضمانت دی جائے۔ اس حوالے سے مَیں پہلے ہی رقم کرچکا ہوں کہ ’’دروغ بر گردنِ راوی۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ سرکاری زمینوں پر قبضے ہوں یا ترقیاتی منصوبوں پر آنکھیں بند کرنے کا عمل ہو……یہ افسران ایلفی اپنے پاس رکھتے ہیں: ایک قطرہ دائیں آنکھ میں اور دوسرا بائیں آنکھ میں ڈالتے ہیں، اور ایک بڑا قطرہ زبان کے نیچے ڈال دیتے ہیں، تاکہ مردہ ضمیر کروٹ لے بھی، تو اظہار کا کوئی راستہ نہ رہے۔
اس فیشن میں سینئر اور جونیئر کا تکلف بھی ختم ہوچکا ہے۔ اب تو یہ ایک نیلام گھر ہے، جہاں اعلا تعلیم یافتہ صوبائی یا وفاقی افسر ایک گھٹیا، انگوٹھا چھاپ، کرپٹ اور بدبودار ’’عوامی لیڈر‘‘ کے سامنے پیش ہوتا ہے اور اپنی خودی روند کر اپنی بولی لگواتا ہے۔
سیاسی لیڈروں نے شرط واضح رکھی ہوتی ہے، جو جتنا زیادہ گرسکتا ہے ، اُسے ہی اُٹھا کر سینے سے لگایا جائے گا۔ بہ قولِ شاعر
دانہ خاک میں مل کر گلِ گل زار ہوتا ہے
ایسے ’’دانے‘‘ اَب عام ہیں۔کچھ عرصہ خاک میں رہ کر ’’گل زار‘‘ بن ہی جاتے ہیں؛ ان کی گروتھ تیز ہوتی ہے اور پھول بھی جلد لگ جاتے ہیں۔
سنا ہے عسکری قیادت کو بھی تعیناتیوں کا بڑا پیار ہے۔ افسران سے پہلے ملنا، اُن کی نیت اور ارادے پرکھنا…… اور پھر یہ آخری رسومات ادا کرکے مردہ ضمیر افسر کو مسند پر بٹھا دیا جاتا ہے۔
یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ ایک سے سنا، پھر دوسرے سے، پھر تیسرے سے…… اور اب انھیں ضبطِ تحریر میں لایا۔ مجھے بہت خوشی ہوگی، اگر یہ سب محض افواہیں ہوں اور کسی نے مجھے مایوس کرنے کے لیے کہا ہو۔ اگر ایمان داری اب بھی قائم ہو، افسران سیاسی کرپٹ لوگوں کے اشاروں پر چلنے کو تیار نہ ہوں، اور کوئی مجھے ایسے کسی ایک افسر کی مثال بھی دے دے، تو مَیں مطمئن ہوجاؤں گا اور سکون کا سانس لے کر دروغ گو راوی پر چار حرف بھیج کر ایک اور تحریر لفظونہ ڈاٹ کام کے پلیٹ فارم کی زینت بناؤں گا۔ تب تک کے لیے خدا حافظ و ناصر……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے