روسی افواج نے 1885ء میں دریائے آمو کے جنوب میں واقع متنازع نخلستان ’’پنچ دہ‘‘ افغان فوج سے زبردستی چھین لیا۔ اس واقعے کے بعد 1885ء سے 1887ء کے درمیان انگریز، روسی اور افغانی نمایندوں پر مشتمل ایک مشترکہ سرحدی کمیشن نے روس اور افغانستان کے درمیان باقاعدہ سرحد کا تعین کیا۔ یہ دراصل ’’گریٹ گیم‘‘ کے دور کی ایک نمایاں کڑی تھی، جب وسطی ایشیا میں روس اور برطانیہ کے درمیان اثرورسوخ کی جنگ جاری تھی۔ (1)
وقت گزرتے گزرتے روس (سوویت یونین) کا افغانستان پر اثر بڑھتا گیا۔ خاص طور پر 1955ء کے بعد روس نے افغانستان کو اربوں روپے کی معاشی اور فوجی امداد فراہم کی۔ کابل کی سڑکوں سے لے کر بڑے ڈیموں تک، روسی ماہرین کی موجودگی عام ہونے لگی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے دور میں روس اور امریکہ، دونوں افغانستان میں اپنے اثرات بڑھانے کی دوڑ میں تھے۔ (2)
اپریل 1978ء میں افغانستان کی کمیونسٹ جماعت نے صدر محمد داؤد کو ہلاک کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس واقعے کو تاریخ میں ’’انقلابِ ثور‘‘ کہا جاتا ہے۔ انقلاب کے بعد عوامی جمہوریہ افغانستان قائم ہوئی اور نئی حکومت نے کسانوں اور مزدوروں کے حق میں اصلاحات کا اعلان کیا۔ تاہم ملک کے قبائلی اور مذہبی حلقوں میں ان اصلاحات کو زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ (3)
انقلابِ ثور کے بعد سوویت یونین اور افغانستان کے درمیان 5 دسمبر 1978ء کو دوستی و تعاون کا معاہدہ طے پایا۔ اس کے تحت روسی مشیر اور فوجی افسران کابل میں تعینات ہوئے، لیکن جلد ہی مختلف علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوگئے، جو بغاوت کی شکل اختیار کر گئے۔ یہی وہ پس منظر تھا، جس نے افغانستان کو خانہ جنگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ (4)
اس دوران میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے (CIA) نے ’’آپریشن سائیکلون‘‘ کے نام سے ایک خفیہ منصوبہ شروع کیا، جس کے تحت افغانستان میں سوویت اثر کو روکنے کے لیے ’’مجاہدین‘‘ کی تربیت اور مالی امداد کا آغاز کیا گیا۔ پاکستان نے بھی امریکی دباو اور مالی تعاون کے تحت ان گروہوں کی مدد کی۔ اُس وقت جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے حزبِ اسلامی کے گلبدین حکمت یار سمیت کئی مذہبی تنظیموں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔ (5)
دسمبر 1979ء میں جب افغان حکومت نے سوویت مدد کی باضابطہ درخواست کی، تو روسی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ اس اقدام کے بعد دنیا بھر میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اسلامی ممالک نے قراردادیں منظور کرتے ہوئے روس سے فوری انخلا کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران میں لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان آگئے اور قبائلی علاقوں میں مجاہدین کے کیمپ قائم ہوئے۔ (6)
افغانستان کے اندر خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت بڑھتی گئی۔ روس نے اپنی کم زور معیشت اور بین الاقوامی دباو کے باعث 1989ء میں اپنی افواج واپس بلائیں۔ اس کے باوجود روس نے صدر نجیب اللہ کی حکومت کو کچھ عرصہ مالی مدد فراہم کی، مگر اپریل 1992ء میں احمد شاہ مسعود اور جنرل رشید دوستم کے اتحاد نے کابل پر قبضہ کر لیا۔ یوں ملک ایک بار پھر اقتدار کی جنگ کا میدان بن گیا۔ (7)
اسی افراتفری کے ماحول میں طالبان کا عروج ہوا۔ 1994ء میں قندھار سے شروع ہونے والی یہ تحریک 1996ء میں کابل پہنچ گئی۔ طالبان نے اپنے امیر ملا محمد عمر کی قیادت میں حکومت قائم کی اور بہ ظاہر امن و استحکام پیدا کیا…… لیکن مغربی دنیا کو طالبان کا سخت گیر طرزِ حکومت قبول نہ تھا اور اُنھوں نے شمالی اتحاد کی مدد سے طالبان کو کم زور کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ (8)
نائن الیون کے بعد امریکہ نے طالبان حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کی۔ طالبان کے خاتمے کے بعد کابل میں ایک نئی حکومت قائم ہوئی، مگر وہ زیادہ تر امریکہ نواز سمجھی جاتی تھی۔ پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ کے ساتھ تعاون کیا، مگر اس کے نتیجے میں خطے میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر اُبھری۔ (9)
جب طالبان نے امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف طویل مزاحمت کے بعد 15 اگست 2021ء کو دوبارہ کابل پر قبضہ کیا، تو دنیا بھر کی افواج کو واپس جانا پڑا۔ یہ واقعہ جدید تاریخ میں امریکی طاقت کے ایک بڑے زوال کی علامت سمجھا گیا۔ تاہم خطے میں امن کے بہ جائے ایک نئی غیر یقینی فضا پیدا ہوگئی۔ (10)
اس کے بعد پاکستان کے لیے حالات مزید نازک ہوگئے۔ ’’تحریکِ طالبان پاکستان‘‘ (TTP)، داعش اور القاعدہ جیسے گروہوں نے سرحدی علاقوں میں دوبارہ سرگرمیاں شروع کر دیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کئی گروہ افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے بارہا افغان طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں، مگر تاحال یہ مطالبات موثر ثابت نہیں ہوسکے۔ (11)
ڈاکٹر نجیب اللہ نے اپنے آخری بیانات میں خبردار کیا تھا کہ ’’جو آگ افغانستان میں بھڑکائی جا رہی ہے، وہ ایک دن پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔‘‘ (12)
ان کا یہ انتباہ آج بھی خطے کی سیاست پر ایک تلخ سچائی کی صورت میں موجود ہے۔ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد بہ حال نہ ہوا، تو یہ آگ سرحدوں سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ بہ قولِ شاعر
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
حوالہ جات:
1) .Peter Hopkirk, The Great Game: On Secret Service in High Asia, 1992.
2) .Louis Dupree, Afghanistan, Princeton University Press, 1973.
3) .Martin Ewans, Afghanistan: A Short History of Its People and Politics, 2002.
4) .USSR-Afghanistan Treaty of Friendship, December 5, 1978, Soviet Foreign Ministry Archives.
5) .Steve Coll, Ghost Wars, Penguin Press, 2004.
6) .Geneva Accords, United Nations Archives, 1988.
7) .Barnett Rubin, The Fragmentation of Afghanistan, Yale University Press, 2002.
8) .Ahmad Rashid, Taliban: Militant Islam, Oil and Fundamentalism in Central Asia, 2000.
9) .US Congressional Report on Afghanistan War, 2006.
10) .The Washington Post, “Afghanistan Papers”, 2021
11) .United Nations Security Council Report on TTP and IS-K, 2023.
12) .Najibullah, Collected Speeches, Kabul University Press, 1996.
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










