پاک افغان تناو اور خطے کا مستقبل

Blogger Ikram Ullah Arif

چار سال قبل، جب امریکہ نے افغانستان کو 20 برس بعد ’’خدا حافظ‘‘ کہا، تو افغانیوں سے زیادہ خوشی پاکستانیوں کو تھی۔ حکومتی وزرا ایمان افروز پیغامات دے رہے تھے۔کئی اہم ذمے داران تو کابل پہنچ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ گویا روس کے بعد امریکہ کو ’’شکست‘‘ دینے میں بھی ہمارا کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
یہ خوشی بہ ظاہر فطری تھی، کہ ایک مسلمان پڑوسی ملک سے ایک کافر، غاصب اور حملہ آور قوت ذلت آمیز شکست کے ساتھ نکل رہی تھی…… مگر حقیقت کچھ یوں تھی کہ اُسی حملہ آور کو یہاں کی آمریت میں افغانستان کے لیے نیٹو سپلائی سمیت تمام سہولیات میسر تھیں، جو بعد کی نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بھی جاری و ساری رہیں۔ اسی بنیاد پر امریکہ نے پاکستان کو ’’غیر نیٹو اہم اتحادی‘‘ کا درجہ دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اُسی ’’اتحادی‘‘ (امریکہ) نے سلالہ چیک پوسٹ پر بمباری کرکے دس سے زیادہ پاکستانی فوجی جوانوں کو شہید کر دیا تھا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے، تو بڑے اتحادی (امریکہ) کی افغانستان میں ’’شکست‘‘ کو چھوٹے اتحادی (پاکستان) کے لیے ’’جیت‘‘ گرداننے کی کیا تک بنتی ہے……؟ مگر اس کے باوجود وفاقی وزرا تک خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے۔ حالاں کہ امریکہ جس حالت میں جدید ترین اسلحہ چھوڑ کر جا رہا تھا، اُس سے یہ خدشات جنم لے رہے تھے کہ مستقبل زیادہ پُرامن نہیں ہوگا۔
خیر، اب چار سال گزر چکے ہیں۔ باوجود بہ راہِ راست اور بالواسطہ کوششوں کے، پاک افغان تعلقات میں استحکام پیدا نہیں ہوسکا۔ پاکستان کا مسلسل دعوا رہا ہے کہ افغان سرزمین، پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ یہ نہ صرف علاقائی، بین الاقوامی اور ہمسائیگی کے اُصولوں کی خلاف ورزی ہے، بل کہ ’’دوحہ معاہدے‘‘ کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے، جس میں افغان طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری جانب، افغانستان کی موجودہ قیادت کو بھی پاکستان سے شکایات ہوں گی، مگر پاکستانی شکایات زیادہ پُراثر ہیں۔ کیوں کہ یہ بہ راہِ راست امن و سلامتی سے متعلق ہیں۔ پاکستان میں روزانہ کے حساب سے فوجی جوان شہید ہو رہے ہیں اور رواں سال اس معاملے میں نمایاں شدت دیکھی گئی ہے۔
افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ وہاں کی حکومتی قیادت بہ ظاہر دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ ایک گروہ، جس میں وزیرِ خارجہ مولوی امیر متقی سمیت نسبتاً معتدل مزاج رہ نما شامل ہیں، یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان کو دہشت گرد تنظیموں سے روابط ختم کرنے اور دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے خواتین کی تعلیم سمیت دیگر انسانی حقوق پر عائد پابندیوں کو نرم کرنا چاہیے۔
دوسرا گروہ، جو امیرالمومنین ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کی قیادت میں ہے، سخت گیر مگر نہایت بااثر ہے۔
ایسے میں تحریکِ طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگ جوؤں کو افغانستان میں سہولیات ملنا سوالیہ ضرور ہے، مگر حیران کن نہیں۔ افغان حکومت کے بعض سخت گیر حلقے ان جنگ جوؤں کو ’’مجاہد‘‘ سمجھتے ہیں، جو امریکہ مخالف جہاد میں اُن کے ساتھ باقاعدہ شریک رہے ۔ اُن کے خیال میں اب ان ’’مجاہدین‘‘ کو ملک بدر کرنا ناانصافی ہوگی۔ البتہ ملا ہیبت اللہ نے یہ حکم ضرور جاری کیا تھا کہ ’’بیرونِ ملک جہاد‘‘ کے لیے جانا منع ہے، مگر پاکستان کا کہنا ہے کہ ان بیانات کے باوجود زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوئے۔
اور حقائق یہ ہیں کہ افغانستان میں اب بھی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں، جہاں سے پاکستان پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی یہ مجبوری قابلِ فہم ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے مستحکم اقدامات کرے…… مگر ساتھ ہی احتیاط بھی ضروری ہے۔ کیوں کہ جذبات میں اُٹھایا گیا کوئی بھی قدم منفی نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے، جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کابل سمیت افغانستان کے مختلف شہروں میں دھماکے سنے گئے۔ افغان وزارتِ خارجہ نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جب کہ پاکستان نے جمعے کی شام تک تصدیق کی نہ تردید۔ تاہم سرکاری بیان کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ ’’پاکستان اپنی دفاعی ضرورت کے لیے ضروری اقدامات کے تسلسل میں ہے۔‘‘
چار سال قبل پاکستانی خوش تھے اور آج چار سال بعد ناخوش…… مگر افغانستان کے حکم ران شاید شدید خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ حالاں کہ وہاں کے عوام، خصوصاً نوجوان نسل، بے زار اور پریشان ہیں۔ طالبان ’’جہاد‘‘ کے ماہر ہیں، مگر جہاں بانی کے بالکل نہیں۔ خاص طور پر اس ’’گلوبل ویلج‘‘ اور انٹرنیٹ کے دور میں جب دنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے، پابندیوں اور تنہائی سے عوام تنگ آجاتے ہیں۔ افغانستان میں بھی یہی کیفیت ہے۔
کیا معلوم کب وہاں کی ’’جنریشن زی‘‘ بھڑک اُٹھے اور ایک نئی جنگ و جدل کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ امن دونوں پڑوسی ممالک کی یک ساں ضرورت ہے ۔ اس لیے لازم ہے کہ افغانستان اور پاکستان، سنجیدگی اور باہمی اعتماد کے ساتھ، دہشت گردی کے مسئلے سے نجات حاصل کریں۔ تاکہ چار سال قبل افغانستان کی آزادی پر خوش ہونے والے پاکستانی ایک بار پھر افغان عوام کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے