شر سے خیر اور خیر سے شر برآمد کرنے والی بلاشبہ ذاتِ خداوندی ہے، وحدہ لا شریک۔ ورنہ کون جانتا تھا کہ چند روزہ جھڑپوں میں بھارتی غرور پاکستانی شاہینوں کے ہاتھوں ملیامیٹ ہو جائے گا۔ اللہ نے پاکستان کو برتری عطا کی اور پھر دنیا بھر کے سفارتی، تجارتی اور سیاسی طور پربند دروازے پاکستان کی طرف کھلتے گئے۔ کبھی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ بھارتی خواب یہ ہے کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہو جائے، مگر آج بالکل اُلٹا منظر نظر آ رہا ہے۔ امریکہ سے مشرقِ وسطیٰ تک اور ارمینیا سے چین تک لوگ پاکستان کے حق میں بول رہے ہیں۔
اس کام یابی پر خدا کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیے تھا اور اپنی غلطیوں کا اِزالہ کرنا چاہیے تھا۔ افسوس کہ ایسا نہ ہوا اور خوشی کے نشے میں ہمارے کرتا دھرتا ملکوں ملکوں گھومنے لگے۔ یہ بات یقینی ہے کہ جنگی میدان میں ایک کام یابی کا یہ مطلب قطعی نہیں ہوتا کہ یہاں کے تمام مسائل ختم ہوگئے ہیں۔ ہمارے سامنے مسائل کا ایک انبار کھڑا ہے اور اگر اس سے بروقت نمٹا نہ گیا،تو (خاکم بدہن) بہت کچھ بدل سکتا ہے۔
ان حل طلب مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ’’اسکول سے باہر بچے‘‘ ہے۔ یہ بچے کیوں اسکول سے باہر ہیں؟ اس کی وجوہات بے شمار ہیں، مگر فی الحال باعثِ توجہ حکومت کی غفلت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں دو کروڑ پچاس لاکھ سے زیادہ بچے، بچیاں اسکول سے باہر ہیں۔ ان میں سے تقریباً 80 لاکھ صرف پنجاب میں ہیں، جب کہ قریباً پچاس لاکھ بچوں اور بچیوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا وہی صوبہ جہاں ایک ہی پارٹی مسلسل تیسری بار برسراقتدار ہوئی ہے اور صوبہ بھر میں ’’تعلیمی ایمرجنسی‘‘ بھی نافذ ہے ۔ یہاں اسکول سے باہر پچاس لاکھ بچوں میں سے 55 فی صد سے زائد طالبات ہیں۔ یہ اعداد و شمار برسرِاقتدار پارٹی کے لیے باعثِ ہیں۔
اسی طرح سندھ اور بلوچستان میں بھی کثیر تعداد میں بچے اور بچیاں حصولِ تعلیم سے محروم ہیں۔ کل ملا کے ملک بھر میں یہ تعداد دو کروڑ پچاس لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وفاق اور چار صوبائی اکائیوں میں دیگر ڈراموں اور غیر ضروری اُمور کے لیے فنڈز کی کمی بھی نہیں اور تشہیری اخراجات کی فراوانی بھی ہے، مگر مذکورہ بچوں اور بچیوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سنجیدگی کی شدید کمی دکھائی دیتی ہے۔
کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ دو کروڑ سے زائد بچے اور بچیاں اگر بغیر تعلیم کے جوان ہوں گے، تو معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عرب اسپرنگ میں نوجوان نسل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، اور ہمارے پڑوسی ممالک سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال میں بھی نوجوان نسل نے حکومتوں کے تخت اُلٹ دیے اور حکم رانوں کو بھاگنے پر مجبور کیا۔
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ’’جنریشن زی‘‘ (Generation Z) وہ افراد ہیں، جن کی پیدایش 1997ء سے 2012ء کے درمیان ہوئی، اور اسی کم عمر گروپ نے پختہ عمر حکم رانوں کو چیلنج کیا۔ وہ 2 کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچے جو اسکولوں سے باہر ہیں، بیش تر ’’جنریشن الفا‘‘ (Generation Alpha) سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی وہ بچے جو 2010ء سے 2024ء کے درمیان پیدا ہوئے ہیں۔ اگر ’’جنریشن زی‘‘ اور ’’جنریشن الفا‘‘ ساتھ مل جائیں، تو نتیجہ قابلِ غور ہوگا۔
افسوس ناک بات صرف یہ نہیں کہ بچے تعلیم سے محروم ہیں، بل کہ زیادہ تشویش ناک یہ امر ہے کہ ’’جنریشن زی‘‘ اور ’’جنریشن الفا‘‘ دونوں کو سوشل میڈیا تک بہتر رسائی حاصل ہے۔ اب جو بچے اَن پڑھ بڑے ہو کر سوشل میڈیا تک رسائی رکھتے ہیں، وہ آسانی سے مختلف پروپیگنڈوں اور منفی اثرات کا شکار بن سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ 2 کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچے اور بچیاں، جو اسکولز سے باہر ہیں، سوشل میڈیا کے زیرِ اثر حکومتوں اور معاشروں کے لیے وبالِ جان بن سکتے ہیں، مگر ذمے داروں میں کوئی گہرا احساسِ ذمے داری دکھائی نہیں دیتا۔
ہمارے اردگرد کے ممالک کے تلخ تجربات اس بات کے گواہ ہیں کہ اگر بروقت تدبیر نہ کی جائے، تو سیاہ مقدر ٹالا نہیں جا سکتا۔ مختلف رپورٹس کے جائزے کے بعد ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ملک بھر میں کُل آبادی کا تقریباً 75 فی صد حصہ سمارٹ فون استعمال کرتا ہے، جس میں نوجوان (عمر 21 تا 30 سال کے درمیان) تقریباً 77 فی صد ہیں، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ تو کیا انٹرنیٹ کی بندش مسئلے کا حل ہے۔
اگر ہم محدود وسائل کے ساتھ ایک پانچ گنا بڑے دشمن کو جنگ میں شکست دے سکتے ہیں، تو اسکول سے باہر بچوں اور بچیوں کو اسکول کا راستہ کیوں نہیں دکھا سکتے؟
کیا حکومت، والدین اور سماج اس مسئلے کی حساسیت اور اہمیت سے واقف بھی ہیں یا نہیں……؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










