ریاست کا تصور صرف جغرافیائی حدود اور انتظامی ڈھانچے تک محدود نہیں ہوتا، بل کہ اس کی روح ان فرائض میں پنہاں ہوتی ہے، جو وہ اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے ادا کرتی ہے۔ ان فرائض میں تعلیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، کیوں کہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے، جو نہ صرف فرد کو شعور، روزگار اور بہتر مستقبل فراہم کرتی ہے، بل کہ ایک مہذب، باشعور اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد بھی رکھتی ہے۔ اسی لیے دنیا کی تمام ترقی یافتہ ریاستیں تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بناتی ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں معاملات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے حالیہ مہینوں میں سرکاری تعلیمی اداروں کو ’’آؤٹ سورس‘‘ یا نجی شعبے کے سپرد کرنے کی جو پالیسی اپنائی گئی ہے، وہ نہ صرف غیر آئینی ہے، بل کہ اخلاقی طور پر بھی ناقابلِ جواز ہے۔ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 25A ریاست کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے۔ اس کے باوجود حکومت، تعلیمی اداروں کو نجی ہاتھوں میں دے کر درحقیقت اس آئینی تقاضے سے انحراف کر رہی ہے۔ اگر ریاست اپنی آئینی ذمے داریوں سے پیچھے ہٹنے لگے، تو پھر اس کی قانونی و اخلاقی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
اس تمام تر منصوبے کو ’’خراب کارکردگی‘‘ ، ’’داخلوں میں کمی‘‘ یا ’’وسائل کی کمی‘‘ جیسے خوش نما الفاظ میں لپیٹ کر پیش کیا جا رہا ہے، مگر سچ یہ ہے کہ ان مسائل کی بنیادی وجہ خود حکومت کی مجرمانہ غفلت، ناقص منصوبہ بندی، غیر سنجیدہ پالیسی سازی اور زمینی حقائق سے لاتعلقی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ دیہی و پس ماندہ علاقوں میں قائم درجنوں اسکول آج بھی اساتذہ، بجلی، پانی اور فرنیچر جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں کہ نصابِ تعلیم بارہا سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا اور اساتذہ کو تعلیمی سرگرمیوں کی بہ جائے غیر تدریسی سرگرمیوں میں اُلجھایا گیا؟ ایسے حالات میں اگر داخلے کم ہو رہے ہیں، یا نتائج خراب آ رہے ہیں، تو اس کی ذمے داری طلبہ یا اداروں پر نہیں، بل کہ ریاستی پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے۔
یہاں ایک بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ کیا آؤٹ سورسنگ یا نج کاری سے ان اداروں کے مسائل حل ہو جائیں گے؟
تجربہ بتاتا ہے کہ نجی ادارے منافع کے لیے کام کرتے ہیں، اُن کی اولین ترجیح تعلیم کا فروغ نہیں، بل کہ مالی فائدہ ہوتا ہے۔ ایسے میں جب کوئی ادارہ کسی نجی تنظیم کے حوالے کیا جاتا ہے، تو وہ لازماً فیسوں میں اضافہ کرے گی، داخلے محدود کرے گی اور مفت تعلیم کا خواب صرف ایک طبقے تک محدود ہو جائے گا۔ غریب اور متوسط طبقے کے بچے اس نظام سے باہر دھکیل دیے جائیں گے، جس سے معاشرے میں مزید عدم مساوات، احساسِ محرومی اور طبقاتی تفریق پیدا ہو گی۔
اس کے علاوہ نج کاری کا عمل شفاف بھی نہیں ہوتا۔ اکثر ادارے سیاسی سفارشوں، مالی مفادات یا غیر معروف این جی اُوز کو نوازنے کے لیے ٹھیکے پر دیے جاتے ہیں، جن کے پاس تجربہ ہوتا ہے نہ تعلیمی وِژن۔ ایسے ادارے وقتی بندوبست تو کرلیتے ہیں، مگر طویل مدتی پائیدار نظام نہیں دے سکتے۔ نتیجتاً نہ صرف تعلیمی معیار مزید گرے گا، بل کہ اساتذہ کا روزگار بھی غیر یقینی ہو جائے گا۔ کیوں کہ نجی شعبہ اکثر تجربہ کار اساتذہ کو نکال کر سستا اور ناتجربہ کار عملہ بھرتی کرتا ہے۔
پچھلے چند ہفتوں میں مختلف شہروں میں اس پالیسی کے خلاف جو طلبہ سڑکوں پر نکلے ہیں، وہ کسی بھی مہذب ریاست کے لیے ایک وارننگ ہونی چاہیے۔ یہ احتجاج محض کسی مخصوص ادارے کی نج کاری کے خلاف نہیں، بل کہ ایک بڑے نظریاتی خطرے کے خلاف ردِ عمل ہے۔ اگر یہی روش جاری رہی، تو یہ تحریک ایک وسیع البنیاد احتجاج میں تبدیل ہوسکتی ہے، جو کسی بھی وقت کسی ناخوش گوار واقعے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ ایسی صورت میں تمام تر ذمے داری ریاستی پالیسی سازوں پر عائد ہوگی، جنھوں نے عوامی رائے کو نظر انداز کیا اور خاموشی سے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کی۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ حکومت اپنے وسائل کو شہ خرچیوں اور نمایشی منصوبوں پر صرف کرنے کے بہ جائے تعلیمی اداروں کی بہتری پر لگاتی۔ اگر بیوروکریسی کی مراعات، غیر ترقیاتی اخراجات اور وزرا کے پروٹوکول پر خرچ ہونے والی دولت کا نصف بھی تعلیم پر لگا دیا جائے، تو ہمارے اسکول کسی یورپی اسکول کے معیار سے کم نہ ہوں…… مگر بدقسمتی سے ہماری ترجیحات میں تعلیم کو ہمیشہ ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔
حکومت کے اربابِ اختیار کو اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ کیا وہ خود کو تاریخ میں ایک ایسی حکومت کے طور پر یاد رکھنا چاہتے ہیں، جس نے تعلیم جیسے مقدس شعبے کو نیلام کیا؟
اگر نہیں، تو فوری طور پر نج کاری اور آؤٹ سورسنگ کا یہ متنازع فیصلہ واپس لینا ہوگا۔ ساتھ ہی ایک قومی تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے تعلیمی اداروں کی بہ حالی، اساتذہ کی تربیت، انفراسٹرکچر کی بہتری اور نصاب کی اصلاح پر توجہ دینی ہوگی۔ ورنہ عوامی ردِ عمل، عدالتی مداخلت یا معاشرتی خلفشار کی صورت میں جو نتائج سامنے آئیں گے، ان کے سامنے موجودہ مسائل شاید معمولی لگیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










