اہلیت اور میرٹ

Blogger Muhammad Ishaq Zahdi

کسی بھی معاشرے کی کام یابی اور ترقی کا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہاں اختیارات کن لوگوں کے ہاتھ میں ہیں؟ اگر قوم کی باگ ڈور اہل، دیانت دار اور باصلاحیت افراد کے سپرد کی جائے، تو وہ نہ صرف اداروں کو مضبوط بناتے ہیں، بل کہ نئی نسل کے لیے ایک روشن مثال بھی قائم کرتے ہیں۔
دوسری طرف، اگر نااہل، خود غرض اور ناتجربہ کار افراد کو اختیارات دیے جائیں، تو وہ اداروں کی بنیادیں کھوکھلی کر دیتے ہیں اور پوری قوم کو پستی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔
٭ اہلیت کو نظر انداز کرناقوموں کی زوال کا آغاز:۔ جب کسی معاشرے میں تقرر، ترقی، یا بڑے فیصلے سفارش، اقربا پروری یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر کیے جانے لگیں، تو وہاں میرٹ دفن ہو جاتا ہے۔ قابل اور محنتی افراد حاشیے پر چلے جاتے ہیں اور اُن کی صلاحیتیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ ایسے ماحول میں مایوسی جنم لیتی ہے، اور نوجوان طبقہ خود کو بے قدری کا شکار محسوس کرتا ہے۔ یہی مایوسی رفتہ رفتہ معاشرتی بگاڑ، ذہنی انتشار اور ہجرت جیسے رجحانات کو جنم دیتی ہے۔
٭ میرٹ اور دیانت داری ایک ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد:۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو ایک بات مشترک ملے گی: وہاں اداروں کی بنیاد میرٹ، شفافیت اور انصاف پر رکھی گئی۔ وہ قومیں جانتی تھیں کہ اگر ’’دستار‘‘ کسی نااہل ’’سر‘‘ پر رکھی گئی، تو وہ بوجھ بن جائے گی، عزت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے قابلیت، تجربے اور اخلاقی اُصولوں کو ہمیشہ اولین ترجیح دی۔
٭ ہمارا راستہ کیا ہونا چاہیے؟
اگر ہم واقعی اپنے معاشرے کو ترقی یافتہ، خوش حال اور باوقار بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے اپنے فیصلوں کی بنیاد اہلیت، دیانت داری اور اُصولوں پر رکھنی ہوگی۔ تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر، نجی شعبے یا سیاست ہر سطح پر میرٹ کو فوقیت دینی ہوگی۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ عہدہ محض رتبہ نہیں، بل کہ ایک امانت ہے…… اور امانت صرف اُسے دی جانی چاہیے جو اس کا اہل ہو۔
قارئین! قوموں کی قسمت اُن کے فیصلوں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اگر ہم آج یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نااہلی، سفارش اور بدعنوانی کے خلاف کھڑے ہوں گے اور صرف قابل افراد کو اختیار دیں گے، تو ہمیں ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
یاد رکھیے، جب ’’دستار‘‘ صحیح ’’سر‘‘ پر سجتی ہے، تو وہ صرف ایک فرد کا نہیں، پوری قوم کا وقار بڑھاتی ہے۔
جب کسی ریاست میں سفارش اور اقربا پروری کو اُصول بنا لیا جائے اور میرٹ کو مسلسل نظر انداز کیا جائے، تو نتیجہ صرف اداروں کی کم زوری نہیں، بل کہ عوام کے اعتماد کے مکمل زوال کی صورت میں نکلتا ہے۔ سفارشی کلچر نے باصلاحیت افراد کو دیوار سے لگا دیا ہے، جب کہ نااہل افراد بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو کر فیصلے کر رہے ہیں، جن کے نتائج تباہ کن ہیں۔ میرٹ کی پامالی نے اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے اور جب ادارے اپنی ساکھ کھو بیٹھتے ہیں، تو ریاست کا نظم و نسق بکھرنے لگتا ہے۔ عوام جب دیکھتے ہیں کہ اُن کی محنت اور قابلیت کی کوئی قدر نہیں، تو وہ یا تو مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں، یا نظام سے بے زار ہو کر غیر روایتی راستے اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے، جب قومیں پستی کی طرف لڑھکنے لگتی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے