وہ جمعے کا دن تھا…… یعنی چھٹی کا دن تھا۔ کاروبار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں ہفتے بیت گئے تھے۔ صبح سے رات تک کی محنت نے بدن توڑ کے رکھ دیا تھا۔ مَیں یوں سویا ہوا تھا، جیسے بے سدھ، ہر شے سے بے نیاز، حتیٰ کہ اس احساس سے بھی غافل کہ اُٹھ کر جانا ہے۔
عام طور پر موبائل کو بے آواز اور بے حرکت کر کے اُلٹا میز پر رکھ دیتا ہوں کہ جمعے کی رات کہیں یہ جگا نہ دے…… مگر اُس رات شاید تھکن کے باعث یہ نہ ہوسکا۔ موبائل ہاتھ سے گرگیا اور صبح اس کی سکرین آنکھ کے قریب تھی۔ اندھیرے کمرے میں وہ روشنی چمکی تو آنکھ کھل گئی۔ دیکھا، عیسیٰ خان کا فون تھا۔ پہلا خیال آیا کہ شاید کوئی قریبی رخصت ہوا ہے۔ دفعتاً تشویش میں پڑگیا۔ اس احساس کے ساتھ فون اُٹھایا۔ ہیلو کہا، تو اس نے پوچھا: ’’پانی کی کیا حالت ہے؟‘‘
مَیں نے حیرت سے کہا: ’’پاگل ہو گئے ہو کیا…… کون سا پانی؟‘‘
اُس نے جلدی سے کہا: ’’خوڑ میں پانی آیا ہوا ہے، نالیاں رُک گئی ہیں، خوف ہے کہ پانی گھروں میں داخل نہ ہوجائے۔‘‘
مَیں نے جھنجھلا کر کہا: ’’جاؤ باڑ میں، تم اور تمھارے اندر کا جاسوس دونوں……!‘‘ اور فون بند کر دیا۔
مگر دوسرے ہی لمحے سوچنے لگا کہ وہ آخر کَہ کیا رہا تھا۔ کان لگا کر باہر کی فضا کو پرکھا، تو بلا کا سکوت تھا۔ بیڈ سے چھلانگ مار کر باہر نکلا، تو ایک اور ہی دنیا میرا استقبال کر رہی تھی۔ خوڑ میں تیز پانی کا شور تھا۔ کبھی کوئی چیز اس کے ساتھ بہتی نظر آتی، کسی کا سرمایہ، کسی کی محنت، کسی کا پیارا سامان……!
میں نے وڈیوز بنائیں اور سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔ لوگ تبصرے کر رہے تھے ۔ کوئی کَہ رہا تھا یہ بس قطرہ ہے، نکل جائے گا۔ ہر شخص اپنے تجربات بیان کرتا رہا، مگر دل کے اندر خوف تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
مَیں پاگلوں کی طرح گھر کا سامان سمیٹنے لگا۔ سب کچھ اوپر کی منزل پر پہنچانے کی کوشش کی۔ فریج، کچن کا سامان، آٹا، چاول، گدے، بستر…… و علیٰ ہذا القیاس۔ گھر والے نیم دلی سے میرا ساتھ دے رہے تھے کہ شاید کل یہ سب دوبارہ نیچے لانا پڑے…… مگر میرے غصے اور بے تابی نے اُنھیں متحرک کیا۔
مَیں صحن میں کھڑا گویا سیلاب کا منتظر تھا۔ گیٹ کے آگے گملے رکھ دیے، جیسے کسی اَن دیکھے امتحان کی تیاری کر رہا ہوں…… اور پھر جیسے ٹائی ٹینک کو پانی نے نگلا تھا، ویسے ہی سوراخوں اور دراڑوں سے پانی گھر کے اندر اُمڈ آیا۔ دو فٹ پانی میں کھڑا مَیں انتہائی بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔ چشمِ تصور میں سب کچھ ڈوبتا نظر آ رہا تھا……گھر، سامان، خواب…… سب کچھ۔ ایک گھنٹے بعد پانی کم ہونا شروع ہوا، مگر اپنے ساتھ گند، مٹی اور کیچڑ کی موٹی تہہ چھوڑ گیا۔ ہر کمرا، ہر برآمدہ، ہر گملا پانی سے لب ریز تھا۔
ایک گاڑی پہلے ہی نکال دی تھی، مگر دوسری پانی میں ڈوب گئی۔ مستری نے اگلے دن پورا دن لگا کر اسے سٹارٹ کیا۔ فون آنے لگے کہ دفتر میں بھی پانی گھس آیا ہے۔ مَیں خود کو حوصلے دے رہا تھا، مگر دل جانتا تھا کہ مَیں لاچار ہوں۔ والدہ کو فکر تھی کہ کہیں دفتر کا قیمتی سٹاک خراب نہ ہوگیا ہو۔ مَیں نے اُنھیں تسلی دی کہ دفتر اونچی جگہ پر ہے، پانی وہاں جا ہی نہیں سکتا۔ بار بار یقین دلانے پر وہ شکر گزار ہوئیں اور پُرسکون بھی ہوئیں۔
گھر کی صفائی شام تک جاری رہی۔ تھکاوٹ کے بوجھ تلے میں سوگیا۔ اگلی صبح جب گھر سے نکلا، تو انسانی بے بسی کے آثار سامنے تھے۔ گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی۔ بیٹے کے ساتھ اُسے دھکیلتے ہوئے آگے بڑھا۔ دفتر پہنچا، تو ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ تھا۔ سٹور میں ڈرتے ڈرتے قدم رکھا، تو پانی کی سطح دیواروں پر ساڑھے پانچ انچ تک نشان چھوڑ گئی تھی۔ سولر انرجی کے نظام کی بہ دولت کچھ بجلی بہ حال ہوئی۔ شکر ہے کہ ہمارا سٹاک چھے انچ سے اوپر رکھا گیا تھا۔
قارئین! میرا اور فطرت کا عجیب یارانہ ہے۔ اس بار فطرت نے غصہ دکھایا، مگر کوارٹر انچ کی مہربانی سے نقصان سے بچالیا۔ اگر مَیں گھر کا سامان اوپر نہ لے جاتا، تو سب ڈوب جاتا۔ اگر پانی صرف آدھا انچ اور بڑھ جاتا، تو سڑک تک نکل آتا۔
اگلے کئی دن صفائی میں گزرے۔ بیسمنٹ آج بھی آدھا مٹی سے بھرا ہوا ہے۔
سیلاب کے اگلے ہی دن استاد محمد عالم صاحب کا فون آیا۔ اُن کا اپنا گھر غرق تھا، مگر فکر دوسروں کے نقصان کی تھی۔ حکومت نے اُن کا اکاؤنٹ منجمد کر دیا، تو اُنھوں نے بہ راہِ راست امداد کے لیے اپیل شروع کی۔ مَیں بھی اُن کے ساتھ جڑ گیا۔ انسانیت ایک کڑے امتحان میں تھی…… اور مَیں بھی۔
مگر مَیں نے خود کو خوش قسمت پایا کہ اللہ تعالیٰ نے ذاتی طور پر مجھے اتنا نہ آزمایا کہ مَیں دوسروں کی مدد نہ کر پاتا۔ جو کر سکتا ہوں، وہ کر رہا ہوں۔ میری اوقات بس یہی ہے کہ مانگ سکوں، درخواست کر سکوں اور لوگوں کے دلوں کو جھنجھوڑ سکوں۔ مجھے یوں لگا جیسے دعائیں پہلے ہی قبول ہوگئیں۔ غضب ناک فطرت نے مجھے معاف کیا، تاکہ مَیں دوسروں کی دست گیری کرسکوں۔ مَیں اُن تمام لوگوں کا شکر گزار ہوں، جنھوں نے میرے کہنے پر مدد کی آمادگی ظاہر کی…… اور اُن کا بھی ممنون ہوں، جنھوں نے میرے نقصان میں ساتھ کھڑے ہو کر حوصلہ دیا اور مالی مدد کی غیر مشروط پیش کش کی۔
سیلاب امتحان ہے انسانیت کا، تعلقات کا، رشتوں کا، احساس کا…… اور اس کا اصل احساس مَیں نے بہت قریب سے دیکھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔











One Response
Nihayat shafeeq,down to earth,ilm ka samandar mager kesi ko ehsaas b na ho k ilm ka samandar Sath behta hai,insaniyat dost,
wali naday kho khali hm naday