کئی سالوں سے وقتاً فوقتاً لوگ والی سوات کے بنگلے کے بارے میں سوالات اُٹھا رہے تھے۔ اس کی ابتر حالت کی تصاویر اور ویڈیوز ’’اَپ لوڈ‘‘ کر رہے تھے۔ سوات کے لوگ چیخ رہے تھے کہ بنگلہ میں رات کو لوگ چرس پیتے ہیں،کتے بلیوں کے لیے ’’زچہ و بچہ سنٹر‘‘ بن رہا ہے…… مگر کسی نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
ایک مقامی ادبی تنظیم نے ایک خاتون شاعرہ کی کتاب کی رونمائی بھی یہاں منعقد کروادی۔ اس کے گیٹ اُکھڑ گئے۔ مین گیٹ کے قریب کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا رہا۔ لان کی گھاس اور پودے خشک ہوتے گئے۔ اور اور تو اور اندر کمروں کا پلستر جگہ جگہ سے اُکھڑ گیا۔ دوروازے کرم خوردہ ہوگئے۔ بعض کمروں کی فرش ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ القصہ، اس بنگلے کی خستہ حالی کی ویڈیوز ہزاروں لوگوں نے دیکھیں ۔
اس بنگلے کے امتیازی نشانات ایک ایک کرکے مٹتے گئے۔ گیٹ کے باہر مصنوعی توپ اُکھاڑ لیے گئے۔ کوئی اسے بچانے نہ آیا۔ غیر متعلقہ لوگ اس کے خوب صورت ’’پورٹیکو‘‘ میں تصویریں اُترواتے رہے۔
اگر اُسی سٹیج پر اسے عام عوام کے لیے وقف کردیا جاتا اور اس کی عظمت بہ حال کی جاتی، تو آج اس کا یہ حشر نہ ہوتا۔
مگر اب بھی وقت ہے۔ اسے سجا کر اس کی عظمتِ رفتہ بہ حال کی جاسکتی ہے۔ اس میں والئی سوات کے استعمال میں رہنے والی اشیا سجھائی جاسکتی ہیں۔ اُن کی کتابیں، ایش ٹرے ، ہوانا سگار (Havana Cigar)کے ڈبے، کریون اے کے پیکٹس اور ٹن باکسز، دی نیوز اور ٹائمز کے شمارے برامدے میں رکھے جاسکتے ہیں۔
نیز والی صاحب کی مرسیڈیز، پورچ میں کھڑی کی جاسکتی ہے۔ ریاست کا ’’کورٹ آف آرمز‘‘ برامدے کی دیوار پر نصب کیا جاسکتا ہے۔ ریاستی جھنڈا سٹاف پر بلند کرکے لگایا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن بنایا گیا، تو پھر اہلِ سوات جوق در جوق آئیں گے۔ اپنے شان دار ماضی کا نظارہ کریں گے اور اس سے کچھ سیکھیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔











One Response
بہت اچھی تجاویز ہیں.