یہ ایک اور یاد دہانی تھی کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران کس قدر اُلجھا ہوا اور حل طلب ہے۔ منگل کے روز دو مختلف انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں نے متعدد سیاسی راہ نماؤں اور جماعتی کارکنوں کو 9 مئی 2023ء کے روز اشتعال انگیز تقاریر، ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ جیسے الزامات پر اجتماعی سزائیں اور طویل قید کی سزائیں سنائیں۔
مگر یہ فیصلے کسی باب کو بند کرنے کی بہ جائے سیاسی عدم استحکام کی آگ پر مزید تیل ڈالنے کے مترادف ہوں گے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اُن مقدمات میں معتبر گواہ موجود تھے اور نہ ایسے شواہد، جو اُن افراد کو اُن جرائم سے بلاواسطہ جوڑ سکیں، اور یہ فیصلے اعلا عدالتوں میں چیلنج ہونے پر کم زور پڑ جائیں گے۔ اور یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہوگا۔ پاکستان کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے، جہاں سیاسی راہ نماؤں پر قتل، غداری، بغاوت اور ریاست مخالف سرگرمیوں جیسے سنگین الزامات لگائے گئے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ بری ہوگئے۔ کئی سیاست دان جنھوں نے سال ہا سال، بل کہ عشروں تک جیلوں کی صعوبتیں برداشت کیں، بعد ازاں اقتدار میں واپس آئے اور ریاستی پالیسیوں کے معمار بنے۔ آج بھی کئی ایسے افراد حکومتی اتحاد کا باقاعدہ حصہ ہیں۔
سیاسی معاملات کم ہی عدالتوں میں طے ہوتے ہیں۔ اکثر اُن کا فیصلہ ججوں کی بہ جائے عوام کرتے ہیں، جو صرف ملزم کو نہیں، بل کہ الزام لگانے والوں کو بھی کڑی نظر سے پرکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 9 مئی کے واقعات سے جڑے مقدمات کو غیر معمولی احتیاط کے ساتھ نمٹایا جانا چاہیے تھا۔ مثال کے طور پر، سیاسی تقاریر اور سیاسی تشدد سے متعلق مقدمات کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے سپرد کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ ان معاملات کو عام فوج داری قوانین کے تحت بہ آسانی چلایا جا سکتا تھا۔
لیکن ریاست نے ’’سیاسی اختلاف‘‘ کو ’’دہشت گردی‘‘ کے زمرے میں لاکھڑا کرنے کو ترجیح دی۔ اس کے ساتھ ساتھ اِن مقدمات کو عوام کی نظروں سے اُوجھل رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جس سے اِن کی شفافیت پر مزید شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ اگر واقعی ریاست کے پاس ناقابلِ تردید شواہد اور گواہیاں موجود تھیں، جیسا کہ اس کا دعوا ہے، تو اُنھیں منظر عام پر لانا چاہیے تھا…… مگر انصاف کا عمل عوام کے سامنے نہ آسکا۔ اس لیے ان فیصلوں کی شفافیت ہمیشہ مشکوک ہی رہے گی۔
دو سال سے ان مقدمات سے منسلک ملزمان حراست میں ہیں۔ اُنھیں بارہا ضمانت سے محروم کیا گیا، اور مقدمات کے فیصلوں کے منتظر رہے۔ یہاں تک کہ لاہور اور سرگودھا کی انسدادِ دہشت گردی عدالتوں کے فیصلے بھی شاید مزید تاخیر کا شکار ہوتے، اگر سپریم کورٹ ان مقدمات کے جلد نمٹانے کے لیے کوئی حتمی تاریخ نہ دیتی۔
اب اُمید کی جاسکتی ہے کہ آیندہ کارروائیاں کھلی عدالت میں ہوں گی، تاکہ عوام خود اُن پر رائے قائم کر سکیں۔
ادھر، یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر اس سیاسی بھنور میں جا گرا ہے، جس سے نکلنے کی وہ مسلسل کوشش کرتا آیا ہے۔ جو لوگ اقتدار کی مسند پر براجمان ہیں، اُنھیں ایک سادہ مگر تلخ سبق یاد رکھنا ہوگا، جو وقت کے ساتھ کبھی نہیں بدلا: وہ وقتی طور پر عدالتی فیصلوں سے اپنے ناقدین کی زبان بند تو کرسکتے ہیں، مگر حتمی سیاسی فیصلہ ہمیشہ عوام ہی صادر کرتے ہیں۔ جتنا جلدی یہ حقیقت تسلیم کی جائے ، ملک کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
(روزنامہ ڈان کے 24 جولائی 2025ء کے اداریے "?Justice or spectacle” کا ترجمہ، مترجم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










