استقامت کا استعارہ، عبدالرحیم

Blogger Sajid Aman

صدر عبد الرحیم صاحب کو میں بہت ابتدائی زمانے سے جانتا ہوں۔ نہایت ذاتی طور پر، نہایت قریب سے۔
صدر صاحب کی زندگی یا سرگذشت اگر ایک آپ بیتی کی صورت میں تحریر ہو، تو اس ضمن میں کئی نوٹس میرے پاس موجود ہیں…… مگر میری خواہش یہ ہے کہ یہ ایک مکمل آپ بیتی ہو، جس کے راوی خود صدر صاحب ہوں۔ ہر بار جب اُنھیں قائل کرتا ہوں، ایک وقت طے پاتا ہے، مگر پھر صدر صاحب کسی نہ کسی قومی مسئلے میں یوں اُلجھ جاتے ہیں کہ جو ’’مومنٹم‘‘ قائم ہوتا ہے ، وہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ پھر مَیں نئے سرے سے اُنھیں قائل کرتا ہوں، وہ مان بھی جاتے ہیں، مگر ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!‘‘
ایک مدت سے اسی دائرے میں گھوم رہا ہوں، اور قلم گویا قاصر ہے کہ کچھ لکھ سکے۔
ایک ایسا عبدالرحیم جس نے اپنی زندگی کا آغاز مینگورہ شہر سے کیا، کس طرح مالی اُتار چڑھاو کا سامنا کیا، دوستوں اور ساتھیوں کا ساتھ پایا، کبھی گم شدہ ایک صحافی، ایک بھائی، ایک باپ…… ایک ایسا شخص جو ایک مضبوط شہر کے کاروباری منظرنامے پر اُبھرا، جس نے ’’سوات قومی موومنٹ‘‘ کے دور کو دیکھا، ’’متحدہ قومی موومنٹ‘‘ سے متاثر ہونے کی وجوہات کو جھیلا، جماعتِ اسلامی کے اثرات کو محسوس کیا، پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور عمران خان کے ساتھ تجربات سے گزرا۔ ’’فاٹا ریگولیشن‘‘ کے خاتمے کی جد و جہد، بیوروکریسی کی مزاحمت، ’’پراڈکٹ صوفی محمد‘‘ کے لانچ کا وقت، صوفی محمد کا عروج و زوال، طالبانائزیشن کی شروعات، گریٹ گیم اور ملاکنڈ ڈویژن کی ضرورت، پوسٹ طالبان دور، 2009ء کی ہجرت، 2010ء کا سیلاب، بیوروکریسی کے سیاست اور کاروبار پر اثرات، پاٹا انضمام، انضمام میں سیاسی جماعتوں کا کردار، فاٹا انضمام کمیٹی کا قیام، پاٹا پر اس کے اثرات، ٹیکس کے خلاف جد و جہد، 2018ء کے احتجاج، ایس آر اُو 1212ء اور 1213ء کا اجرا، جون 2022ء سے ٹیکس کے خلاف نئی جد و جہد، اگلے تین بجٹ، سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات، پی ٹی آئی کے میئر کی حمایت کا اعلان، مسلم لیگ میں شمولیت اور اس میں شامل رہنے کی وجوہات، سیاسی جماعتوں کے اندر دھڑے بندی، بالخصوص مسلم لیگ کے اندر موجود پریشر گروپس کی کیفیت، ٹکٹ نہ ملنے کی وجوہات، سیاسی نظراندازی کے پسِ پردہ محرکات، عسکری اور دہشت گرد حلقوں کے ساتھ تجربات، کاروباری سرگرمیوں کو وسعت دینے کی کوششیں و علیٰ ہذا القیاس۔
قارئین! مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر صدر صاحب کی آپ بیتی نہایت شفاف، غیر جانب دار اور وسیع النظر انداز میں بغیر کسی بیرونی اثر کے سامنے آ جائے، تو ہمارے سامنے مینگورہ سوات کے گذشتہ 50 یا 55 برسوں کی ایک ایسی مستند، مددگار، جامع اور شفاف تصویر آ جائے گی، جس سے ہم سمجھ سکیں گے کہ آدھی صدی میں ہم کن کن حالات سے گزرے؟
صدر صاحب ایک انسان ہیں، جہاں تک میں اُنھیں جانتا ہوں، وہ ایک نہایت نرم دل اور حساس شخصیت ہیں۔ہمیشہ رش اور ہنگاموں میں رہنے والا مگر تنہائی پسند اور شرمیلا انسان۔ اپنے اندر لڑنے والی ایک زخمی روح، جو اپنی قیمت پر خود کو بیچنے والا، مگر پھر بھی خوددار ہے۔
ایک غم گسار، جسے خود بھی کسی ایسے کندھے کی ضرورت ہے، جو اُسے سہارا دے سکے۔
گرج دار آواز میں بات کرنے والا، مگر فطرتاً خاموش طبع انسان۔
میری خواہش ہے کہ مَیں قلم کے ذریعے ایک دور، ایک عہد کا احاطہ کرسکوں۔ اُس ’’عبدالرحیم‘‘ کو سامنے لاسکوں جو مزاحمت، جد و جہد، اور استقامت کا استعارہ ہے ۔
اُس ’’عبدالرحیم‘‘ کو جو قومی حقوق کے لیے وقف ہے اور اس ’’عبدالرحیم‘‘ کو بھی، جو ’’صدر عبدالرحیم‘‘ کے اندر پناہ لیے بیٹھا ہے۔ ایک معصوم، کھویا کھویا، سہما سہما، مسکراہٹ اور دل فریبی دل میں لیے، غم، دُکھ اور پچھتاوے چھپائے، ایک طویل سفر سے نڈھال، تھکا ہارا، خاموش۔
مجھے کبھی صدر صاحب سے رابطہ کرنے، کوئی بات کرنے یا کوئی مشورہ لینے میں جھجھک محسوس نہیں ہوئی…… اور اُن کی طرف سے کبھی کوئی ناگواری، بے زاری یا بدنیتی محسوس نہیں ہوئی۔
اکثر سوچتا ہوں کہ سوات کے لوگوں کے ساتھ تاریخ نے بہت جبر کیے، مگر شاید تاریخ نے ایک ’’عبد الرحیم‘‘ دے کر بہت سی زیادتیوں کا اِزالہ کر دیا۔
ہم عبد الرحیم کے عہد میں ہیں، یا وہ ہمارے عہد میں…… بہ ہر صورت یہ ہماری خوش نصیبی ہے۔
اُن کے لیے استقامت، بھرپور زندگی، اور اچھی صحت کی دعا کے ساتھ آج کی نشست سمیٹتے ہیں۔
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے، اگر خدا لایا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے