شاید لوگوں کو یقین نہ آئے، مگر موجودہ عالمی نظام اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جو نظام وضع کیا گیا تھا، وہ اپنا طبعی وقت مکمل کرنے والا ہے۔ تقریباً سبھی عالمی ادارے اپنی وقعت کھو رہے ہیں۔ ’’اسرائیل کی بدمعاشی و خود سری‘‘، ’’مسئلۂ فلسطین اور ’’کشمیر کا قضیہ‘‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اقوامِ متحدہ اور اسلامی سربراہی کانفرنس جیسے اداروں کی حیثیت نوحہ گروں سے زیادہ کچھ نہیں۔
دوسری طرف اُبھرتا ہوا چین اور انگڑائی لیتا ایشیا، خاص کر جنوبی اور وسطی ایشیا کے حالات مستقبل کا پتا دے رہے ہیں۔ دور اندیشوں کا کہنا ہے کہ ’’آنے والا دور مشرق کا ہے۔‘‘
قارئین! بہت سارے معاملات ہیں، اگر اُن پر غور کیا جائے، تو بہ آسانی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ واقعی دنیا مغربی تسلط سے بڑی تیزی کے ساتھ آزاد ہوتی جا رہی ہے۔
قارئین! آپ نے گذشتہ ہفتے سنا اور پڑھا ہوگا کہ روس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ یوں روس دنیا کا پہلا ملک بن گیا، جس نے طالبان کی اقتدار کو قانونی جواز مہیا کیا۔ اگرچہ چین، پاکستان، ایران، قطر اور دیگر کئی ایک ممالک میں موجود افغانستان کے سفارت خانوں میں طالبان کے نمایندے فعال ہیں، مگر کسی بھی ملک نے سفیر کی باقاعدہ تعیناتی کو قبول نہیں کیا تھا۔
قارئین! آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ پاک بھارت حالیہ کش مہ کش کے بعد چین میں ایک اہم ’’سہ فریقی اجلاس‘‘ ہوا تھا، جس میں چین کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ شامل تھے۔
اُس اجلاس کے چند دنوں بعد پاکستان نے افغانستان میں موجود اپنے سفارتی ذمے دار کو باقاعدہ سفیر کا درجہ دیا تھا۔ یہ افغانستان میں برسرِ اقتدار حکومت کو تسلیم کرنے کی جانب ایک بروقت قدم تھا۔
اگرچہ پاکستان نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے، مگر توقع ہے کہ جلد ہی پاکستان، چین، سعودی عرب اور دیگر ممالک بھی ایسا ہی قدم اُٹھائیں گے، جس طرح روس نے پہل کی۔
روس کا تو معاملہ ہی عجیب ہے، کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ روس، افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا…… اور انھی طالبان نے امریکی اور دیگر پشتی بانوں کی حمایت سے روس کے حصے بخرے کیے تھے، مگر اَب روس کی جانب سے طالبان کو تسلیم کرنا نئی زمینی اور سیاسی حقیقتوں کو تسلیم کرنے کا اظہار ہے۔
آسان لفظوں میں اس کو ’’فرعون کے گھر موسیٰ پیدا ہونے‘‘ سے تعبیر کرلیں۔
ایک اور مزے کی خبر یہ ہے کہ ایک نئے اتحاد کی تشکیل زیرِ غور ہے، جس کے ابتدائی خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے پاکستان، بنگلہ دیش اور چین کے اہم سرکاری حکام نے چند ہفتوں قبل چین میں ملاقات کی ہے۔
خبر یہ ہے کہ مجوزہ اتحاد ’’سارک‘‘ (SAARC) کی جگہ لے گا۔
قارئین! آپ جانتے ہیں کہ ’’سارک‘‘ جنوبی ایشیائی ممالک یعنی بھارت، پاکستان، نیپال، بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور مالدیپ پر مشتمل علاقائی اتحاد ہے۔ بعد میں اس میں افغانستان کو بھی شامل کیا گیا۔
8 دسمبر 1985ء کو قائم ہونے والا یہ اتحاد جس کا صدر دفتر کھٹمنڈو (نیپال) میں واقع ہے، ’’جنوبی ایشیا کا یورپی یونین‘‘ سمجھا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے بھارتی ہٹ دھرمی، ضد اور علاقائی تھانے دار بننے کی خواہش نے اس تنظیم کو عضوئے معطل بنا رکھا ہے۔
بعد میں بھارتی زیرِ اثر بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت نے بھی ’’سارک‘‘ پر وہی راہ اپنالی جو بھارت کی تھی۔ یوں یہ تنظیم کوئی خاطر خواہ کام نہ کرسکی۔
اَب چین، پاکستان اور بنگلہ دیش نے متبادل بنانے پر کام شروع کیا ہے، جس میں پہلے مرحلے میں بھارت کے علاوہ باقی علاقائی ممالک کو شامل کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو علاقائی روابط اور ترقی میں استحکام آئے گا۔ ساتھ ہی ساتھ مغرب کے بہ جائے مشرق کا عالمی امور میں وزن بڑھ جائے گا۔
قارئین! یہ بات یاد رہے کہ روس اور چین دونوں ’’ویٹو ممالک‘‘ اس علاقے میں موجود ہیں۔ ایسے میں وسطی ایشیا کے ممالک پاکستان، افغانستان، ایران اور ترکی تک مسلمان ممالک کی یہ پٹی اگر متحد ہو جاتی ہے، تو عالمی سیاست کا دھارا تبدیل ہوسکتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نے بھی اسرائیلی بدمعاشی کو کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا، ممکن ہے کہ وہ بھی نوشتۂ دیوار پڑھ کر مغرب کے بہ جائے علاقائی اتحادوں کو زیادہ اہمیت دے دیں۔
اَب جلد یا بہ دیر مغرب کی رنگینی بے رونق ہونے والی ہے۔ دنیا کا مستقبل مشرق سے وابستہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ علاقے کے مسلمان ممالک، خاص کر پاکستان، خود کو کس طرح ان بدلتے حالات کے لیے تیار رکھتا ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










