سوات، سیاحت اور مختلف معاشی و ذہنی مسائل

Blogger Engineer Miraj Ahmad

سوات، پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک دل کش اور دل فریب وادیوں سے بھرا ہوا خطہ ہے، جو ہر سال ہزاروں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ نیلے پانیوں کی جھیلیں، برف پوش پہاڑ، سرسبز و شاداب میدان اور قدرتی خوب صورتی سے مزین نظارے انسان کو چند لمحوں کے لیے دنیا کی تلخیوں سے دور لے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی موسم سازگار ہو، خاص کر گرمیوں، عیدین یا اسکول کی چھٹیوں کے دوران میں سوات کی جانب عوام کا ایک ریلا اُمڈ آتا ہے۔ سوات بائی پاس پر واقع ہوٹلوں، ریسٹورنٹس اور کیفے میں اس قدر رش ہوتا ہے کہ کئی بار لوگوں کو رہایش یا کھانے کے لیے لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
یہ منظر اپنی جگہ قابلِ دید اور خوش آیند ہے کہ لوگ قدرت کے قریب جا کر ذہنی سکون حاصل کر رہے ہیں، مگر اس تصویر کا دوسرا رُخ بہت زیادہ تلخ اور پیچیدہ ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، جہاں کی ایک بڑی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ، بے روزگاری، صحت اور تعلیم کے شعبے میں ناکافی سہولیات اور معاشی دباو نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ بنیادی ضروریات جیسے آٹا، دال، چینی، بجلی اور گیس عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں جب ہم سوات جیسے مہنگے سیاحتی مقامات پر رش دیکھتے ہیں، تو بہ ظاہر یہ ایک بڑا تضاد محسوس ہوتا ہے۔
یہ تضاد دراصل کئی پیچیدہ سماجی، معاشی اور نفسیاتی عوامل کا نتیجہ ہے۔ سب سے پہلے ملک میں موجود طبقاتی فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک طرف ایک چھوٹا مگر طاقت ور طبقہ ایسا ہے جو بے شمار وسائل کا مالک ہے اور دنیا کی ہر آسایش اس کے لیے میسر ہے۔ ان کے لیے سیاحت، ہوٹلنگ، مہنگے کھانے اور سفر معمول کی باتیں ہیں۔ دوسری طرف ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ یہ عدم توازن نہ صرف معاشی لحاظ سے تشویش ناک ہے، بل کہ معاشرتی اضطراب کو بھی جنم دیتا ہے۔
دوسرا اہم پہلو سوشل میڈیا اور جدید طرزِ زندگی کا اثر ہے۔ آج کل کا انسان تصویروں، ویڈیوز، اسٹوریز اور پوسٹس کے ذریعے اپنی زندگی کو دوسروں سے بہتر دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ لوگ اپنے اصل حالات کو چھپا کر صرف اُن لمحات کو دکھاتے ہیں، جو خوش نما ہوتے ہیں۔ اس سوشل دباو میں کئی افراد خواہ وہ مالی طور پر کم زور ہی کیوں نہ ہوں، قرض لے کر یا ضروریاتِ زندگی کو پیچھے چھوڑ کر سیر و تفریح پر جاتے ہیں، تاکہ وہ بھی کام یاب دکھائی دیں۔
مزید یہ کہ سوات میں ہوٹلنگ اور سیاحتی صنعت نے ہر قسم کے سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے مختلف رینج کی خدمات فراہم کی ہیں۔ کم بجٹ والے ہوٹل، خاندانی پیکیجز، گروپ ٹور آفرز اور سستے ریسٹورنٹس نے بھی ان لوگوں کو سیاحت کا موقع دیا ہے، جو پہلے اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاحت صرف اشرافیہ تک محدود نہیں رہی، بل کہ یہ آہستہ آہستہ متوسط اور نچلے طبقے تک بھی پہنچ رہی ہے، چاہے اس کے لیے انھیں کچھ دیر کے لیے مالی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں ذہنی دباو، تھکن اور معاشرتی پریشانیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ لوگ کچھ دن سکون کی تلاش میں شہر چھوڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیر و تفریح اب محض لگژری نہیں رہی، بل کہ ایک طرح کی ذہنی ضرورت بن چکی ہے۔ یہ تفریح ایک وقتی نجات ہے، جو انھیں زندگی کی تلخیوں کو بھولنے کا موقع دیتی ہے، چاہے وہ کچھ دن ہی کیوں نہ ہوں۔
لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب تک ملک میں غربت، تعلیم کی کمی، بے روزگاری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے مسائل موجود رہیں گے، یہ تضاد بڑھتا ہی جائے گا۔ ایک طرف چند لوگ قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوں گے اور دوسری طرف لاکھوں لوگ دو وقت کی روٹی کو ترسیں گے۔ یہ تصویر صرف سوات تک محدود نہیں، بل کہ ملک کے دیگر سیاحتی علاقوں میں بھی نظر آتی ہے ۔
لہٰذا ہمیں بہ حیثیت قوم اس جانب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ایسا معاشرہ کیسا ہوگا، جہاں ہر شخص کو نہ صرف بنیادی سہولیات حاصل ہوں، بل کہ زندگی کی خوب صورتی سے لطف اندوز ہونے کا بھی برابر حق ہو۔ اس کے لیے حکومت کو معاشی پالیسیوں میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔ عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار کی بہتر سہولیات فراہم کرنی ہوں گی اور ہمیں خود بھی سادگی، قناعت اور سماجی انصاف کے اُصولوں کو اپنانا ہوگا۔ تب ہی ہم ایک ایسا پاکستان بنا سکیں گے، جہاں سیر و تفریح سب کے لیے ممکن ہو، نہ کہ چند مخصوص افراد کے لیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے