شاہی قلعہ نگر، دریائے چترال کے کنارے عین اُس جگہ پر بنایا گیا ہے، جہاں قدرتی طور پر کھڑی ایک بڑی اور مضبوط چٹان پھیلتی ہوئی دریا کے اندر تک چلی آتی ہے۔ یہ قلعہ بھی اُسی چٹان پر بنا ہے۔ دریا کا پانی سیدھا اس چٹان سے آ کر ٹکراتا ہے اور پھر اپنا رُخ موڑ کر تھوڑا بائیں طرف مڑتا ہوا آگے بڑھ کر ایک بڑا سا اور موڑ کاٹتا ہوا،اس قلعے کے گرد گھومتا ہے اور پھر دائیں طرف ارندو کے اُور نکل جاتا ہے۔
’’ارندو‘‘ افغانستان اور پاکستان کا بارڈر ایریا ہے۔ یہاں سے افغانستان میں داخل ہو کر جلال آباد کے قریب اس میں ایک نالہ گرتا ہے۔ پھر اس کا نام دریائے کابل ہو جاتا ہے…… اور پھر افغانستان کی سیر کر کے وارسک کے علاقے میں واپس پاکستان میں آ جاتا ہے۔ بنیادی طور پر دریائے چترال کرومبر جھیل کے پانیوں سے وجود پاتا ہے۔ چترال کی دو بڑی جھیلیں ’’شیندور‘‘ اور ’’کرومبر‘‘ ہیں۔ کرومبر جھیل وادئی بروغل میں ہے۔ جو سطحِ سمندر سے 4272 میٹر بلندی پر واقع ہے، جسے دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے 32ویں نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔ وہاں اسے دریائے یارخون کہا جاتا ہے۔ تھوڑا نیچے آ کر دریائے ڑاسپور اس میں مل جاتا ہے اور نیچے آ کر بمباغ میں یہ دریائے مستوج کہلاتا ہے۔ پھر بمباغ میں مزید دو نالے تورکھو اور مورکھو کے علاقے سے آکر اس میں گرتے ہیں۔ یہاں سے اس کا نام دریائے چترال بن جاتا ہے۔ چترال شہر کے قریب دریائے لوٹکوہ اور پھر مزید نیچے شیشی کوہ پل سے دریائے شیشی کوہ آ کر اس کا حصہ بنتا ہے۔
یہ وہی وادئی شیشی کوہ ہے، جہاں پہنچ کر ہم نے قیام کرنے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ یوں کرومبر جھیل کے برف پانیوں کو لے کر چلتا چلاتا، تقریباً دو سو کلومیٹر سفر طے کرتا یہ دریا وادئی چترال میں سے گزر کر افغان علاقے ارندو کے مقام تک پہنچتا ہے۔
چوں کہ یہ قلعہ یہاں پر دریائے چترال کے دوسری جانب ہے۔ اس لیے وہاں اس قلعے تک پہنچنے کے لیے دریا پر ایک پل لگا دیا گیا ہے۔
کٹور دور میں بنائے جانے والے قلعوں کی طرح یہ قلعہ بھی حفاظتی نقطۂ نظر سے افغانستان میں درۂ ارچون اور درۂ ارندو کے راہوں پر نظر رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ وادئی چترال کی ایک لمبی جنوبی سرحد افغانستان سے لگتی ہے۔ زیادہ تر حملہ آور اسی طرف سے آکر چترال پر حملہ آور ہوتے تھے۔ اس لیے کٹور دور کے مہترانِ چترال نے اس سرحد پر نظر رکھنے کے لیے خاص طور پر یہ قلعے تعمیر کروائے تھے۔ یہ قلعہ اب ہوٹل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
یہاں چوں کہ خاصی گرمی تھی۔ تیز دھوپ چمک رہی تھی۔ اس لیے ہم نے دوروں دوروں قلعہ کا دیدار کیا۔ کچھ فوٹوگرافی کی اور آگے روانہ ہوگئے۔ ہمارا پروگرام یہ تھا کہ ہم سب دوست آگے جا کر دروش (Drosh) میں اکٹھے ہوں گے اور وہیں پر کسی ہوٹل پر رُک کر دوپہر کا کھانا کھائیں گے۔ ہمارا آج رات چوں کہ وادئی شیشی کوہ میں جا کر کہیں پر رُکنے کا تھا، جس کے متعلق ہمیں پتا چلا تھا کہ وہاں پر کوئی باقاعدہ ہوٹل بھی نہیں اور نہ وہاں پر رُکنے کے لیے کسی گیسٹ ہاؤس کا وجود ہی ہے۔ ٹینٹ ہم اپنے ساتھ بورے والا (پنجاب) ہی سے لے کر چلے تھے۔ گیس سے بھرا ایک سلنڈر اور کھانا پکانے کا ساز و سامان بھی ساتھ باندھ رکھا تھا۔ پروگرام یہ تھا کہ نہ صرف دروش شہر میں رُک کر دوپہر کا کھانا کھائیں گے، بل کہ رات کے کھانے کے لیے گوشت، سبزی اور ان میں ڈلنے والے دوسرے لوازمات بھی اُدھر ہی سے خریدیں گے۔
دروش کے چپل کباب کی بڑی مشہوری سن رکھی تھی۔ ہمارا پروگرام تھا کہ دروش میں دوپہر کے کھانے میں انھیں کھایا جائے۔ اُدھر وہاڑی کے قریب اڈہ پکھی موڑ میں میرا ایک دوست رہتا ہے، جس کا نام عالمگیر خان ہے۔ وہ چترال کے قریب بروز کے ساتھ ایک چھوٹی سی جگہ، دومانے گاؤں کا رہنے والا ہے۔ دروش شہر میں چپل کباب والے ان کے عزیز ہیں۔ وہ اکثر میرے سامنے ان چپل کبابوں کی تعریف و توصیف کے ڈونگرے برساتا رہتا تھا۔ اُس سے پہلے بھی جب جب مَیں وادئی چترال کے لیے نکلتا، تو وہ مجھے اس شاپ پر کباب ضرور کھانے کی فرمایش کرتا تھا۔ ایک بار میں اُس شاپ پر گیا بھی تھا، مگر اُس وقت چوں کہ اُس شاپ پر رش بہت تھا اور مَیں اُس ٹور میں ایک وین پر سفر کر رہا تھا۔ وین چوں کہ کچھ دیر کے لیے دروش شہر میں رکتی تھی۔ اس لیے اُس وقت کا فائدہ اُٹھا کر مَیں کباب گردی کرنے اُس طرف گیا تھا، مگر رش کی صورتِ حال دیکھ کر مَیں چپ چاپ واپس لوٹ آیا تھا۔ البتہ اس دفعہ ہمارا پکا پروگرام تھا کہ وہاں رُک کر وہ کباب ضرور رگڑیں گے…… مگر جب دروش پہنچے، تو ایک تو پورے مین بازار میں ہمیں سڑک کنارے کوئی ایسی جگہ نہ ملی، جہاں گاڑی پارک کر کے کچھ دیر کے لیے رُکا جا سکے۔ دوسرا گرمی کی ساڑ دینے والی تیز شعاعوں نے ہمیں وہاں رُکنے کا سوچنے تک کی اجازت بھی نہ دی۔
صرف پٹرول پمپ ہی ایک ایسی جگہ ملی، جہاں رُکا جا سکتا تھا۔ ہم دو چار منٹ کے لیے وہاں ضرور رُکے، مگر وہ بھی پیشاب کی حاجت روائی کے لیے۔…… مگر یہاں پر کوئی ایسی جگہ نہ تھی، جہاں پر تھوڑے لمبے عرصے کے لیے رُکا جا سکے۔ اور پھر پارکنگ کی جگہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم دروش شہر کو کراس کر کے آگے نکل گئے۔ ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب کہنے لگے کہ آج تو دروش کی صورتِ حال بھی لاہور کے معروف بازاروں بھاٹی اور لوہاری گیٹ کی سی ہے۔ پہلے ہی تنگ سا بازار ہے۔ کسی جگہ گاڑی روک دیں، تو ساری ٹریفک ڈسٹرب ہو جاتی ہے۔ مَیں نہیں چاہتا کہ ہماری گاڑی کے رُکنے کی وجہ سے یہاں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے ارشاد انجم گاڑی سے اُتر کر ٹیلی نار کی ’’سِم‘‘ لینے کے لیے گیا۔ وہ بھاگ کر ٹیلی نار کمپنی کی قریبی شاپ پر پہنچا، مگر اتنی دیر میں ہمارے پیچھے ٹریفک کی لائن لگ گئی، تو وہ واپس دوڑ کر گاڑی میں آن بیٹھا۔
’’پھالولہ‘‘ یا ’’پالولہ‘‘ زبان جسے ’’پالولہ ڈنگریکوار‘‘ اور ’’عشریتی‘‘ زبان بھی کہا جاتا ہے۔ وادئی دروش اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں بولی جانے والی ایک زبان ہے۔ یہ عشریت، کلکٹک، بیوڑی اور شیشی کوہ وادی کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ انگریزی زبان میں اسے "Palula” اور چترالی زبان میں اسے ’’چترال ڈنگریکوار‘‘ کہا جاتا ہے اور اسے بولنے والے ’’ڈنگریک‘‘ کہلاتے ہیں۔ چترال ڈنگریکوار کے حروف تہجی محفوظ کیے جا چکے ہیں۔ کل 11 سے 12 ہزار لوگ اس زبان کے بولنے والے ہیں، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ قدیم وقتوں میں ان کے آبا و اجداد چلاس سے ہجرت کرکے یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔ ان کی وہاں پر ایک لمبے عرصے تک حکومت رہی تھی۔
’’پالولہ‘‘ اور ’’شینا‘‘ بنیادی طور پر ایک ہی زبان ہیں۔ شینا گلگت، سکردو اور اس کے ملحقہ علاقوں میں اب بھی بولی جاتی ہے، مگر یہاں یہ دروش کے علاقے میں ارد گرد کی دوسری زبانوں کے الفاظ کے ملنے سے ایک الگ زبان بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے اپنی شناخت پالولہ یا پھالولہ زبان کے نام سے بنا لی ہے۔ اس زبان میں قاعدے، کتابیں، کہاوتیں اور دوسری کئی ایک کتب بھی شائع ہو چکی ہیں۔
نسلی اعتبار سے چترال میں تین قسم کی قومیں آباد ہیں۔ اکثریت ’’کھو‘‘ قوم کی ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے نسلی و لسانی گروہ بھی ہیں، جن میں ارندو کے وردگ، مشمانی، شیخ، جنھیں نورستانی بھی کہا جاتا ہے، کے علاوہ دمیڑ کے گڈوچی، مداک لشٹ یا مداکلاشٹ کے تاجک و کوہستانی، بروغل کے ووخک اور پٹھان ہیں۔
نسلی و لسانی بنیاد پرتین قسم کی بڑی قومیں، کھو قوم، گجر قوم اور کلاش قومی آباد ہیں۔
کھو قوم کی بولی کھوار یا کھو واڑ ہے۔ گوجر گوجری زبان بولتے ہیں، جب کہ کلاش قوم کی زبان کا نام کلاشہ ہے۔
کھو قوم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ قوم موجود تحصیل تورکھو اور مورکھو کے علاقوں میں آباد تھی۔ رفتہ رفتہ یہ چترال کے دوسرے علاقوں تک پھیل گئی۔ اَب زیادہ تر چترال میں یہی قوم بستی ہے۔
گوجر قوم کا پیشہ چوں کہ بھیڑ بکریاں پالنا اور ان کی افزایشِ نسل کرنا ہے۔ اس لیے وہ زیادہ تر گھاس والے علاقوں میں رہایش پذیر ہوکر وہاں کی چراگاہوں میں بکریاں چرا کر گزر بسیرا کرتے ہیں۔ ان کی تہذیب و ثقافت بھی بقیہ قوموں سے الگ ہے۔ یہ زیادہ تر مانسہرہ، سوات، دیر و کوہستان سے ہوتے چترال میں آ کر بسے ہیں۔ اب ان کی زیادہ تعداد دروش اور شیشی کوہ کی وادیوں میں آباد ہے۔
کیلاش قوم اب تو کیلاش کی تین وادیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، جن کے نام بریر، ریمبور اور بمبوریت ہیں۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ یہاں کے سب سے پرانے رہایشی ہیں، جو پچھلے 2 ہزار سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ 10ویں صدی سے لے کر 15ویں صدی تک سارے چترال پر ان کی حکم رانی تھی۔ ان کا مذہب اور تہذیب و ثقافت بقیہ چترالیوں سے بالکل مختلف ہے ۔ یہ چھوٹی موٹی زراعت کرنے کے ساتھ بکریاں اور گائے پالتے ہیں۔ اس سارے علاقے میں پھلوں کی بہتات ہے۔ یہ لوگ اب بھی زیادہ تر اپنا گزر بسر مقامی جانوروں کے دودھ اور پھلوں سے بنی اشیا، مقامی چھوٹی موٹی زراعت اور گھریلو صنعتوں پر انحصار کرکے کرتے ہیں۔ اب بھی قدیم یونانی مذہب کی چھاپ میں ڈوبے توہمات اور عجیب و غریب رسم و رواج میں جکڑے ہوئے ہیں۔ بہت سے رنگا رنگ تہوار مناتے ہیں، جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تہذیب، کلچر، رسم و رواج اور رہن سہن پر مبنی ایک تفصیلی کتاب میں نے الگ سے لکھی ہے۔
گجرات یونی ورسٹی کے سکالر، ایکسپلورر اور تاریخ دان سر محمد کاشف علی صاحب نے ان پر بہت گہری تحقیق کی ہے۔ انھوں نے ان تینوں وادیوں کے علاوہ چترال کے دوسرے علاقوں سمیت جنجریت اور جنجریت کوہ کے علاقوں کو بھی ایکسپلور کیا ہے، جو دروش کے مغرب میں واقع ہیں۔ یہ وادیاں دروش سے کوئی زیادہ دور تو نہیں، البتہ وہاں تک رسائی بہت مشکل ہے۔ ان کے بہ قول جنجریت تک تو پھر بھی ٹوٹی پھوٹی اور تنگ سی سڑک جاتی ہے، مگر جنجریت کوہ تک سوائے پیدل چل کر جانے کے کوئی اور راستہ نہیں۔ اس سارے علاقے پر بھی کیلاش قبیلے کی حکم رانی تھی۔ یہاں کے سب لوگ کیلاشی تھے، جو پچھلی تین نسلوں سے مسلمان ہوگئے ہیں۔ یہاں پر کیلاشی مذہب، ان کے رسم و رواج اور تہذیب سے جڑی بہت سی نشانیاں اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
خیر، ہم آہستہ آہستہ چلتے دروش سے چند کلومیٹر آگے دریائے شیشی کوہ کے کنارے بنے ایک ہوٹل تک پہنچ گئے، جس کا نام ’’لیول ٹچ ریسٹورنٹ‘‘ تھا۔ یہاں پر دریائے شیشی کوہ آکر دریائے چترال میں ملتا ہے۔ دریائے شیشی کوہ پر ایک بڑا پل بنا کر چترال تک پہنچنے کا رستہ بنایا گیا ہے۔ یہ ہوٹل انھی دو دریاؤں کے سنگم پر بنا ہوا ہے۔ چوں کہ اس علاقے میں موبائل فون کی سہولت موجود تھی۔ اس لیے ہمیں ایک دوسرے سے کمیونی کیٹ کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
