ریاست سوات: انضمام کے وقت کی صورتِ حال

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
سوات ریاست کے انضمام کے اعلان (جولائی 1969ء) کے فوری بعد کا دور ’’سٹیٹَس کو‘‘ (Status Quo) کہلایا، لیکن نئی انتظامیہ نے سرعت سے اپنی اتھارٹی کا استعمال شروع کر دیا۔ ایک کرنل سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا اور اس نے اپنا دفتر ریاستی سیکرٹریٹ میں قائم کیا۔ اسی طرح نئے بنائے گئے ملاکنڈ ڈویژن کے کمشنر نے سوات ہوٹل میں قیام کیا۔ انضمام سے کچھ ماہ قبل، ریاست نے سوات ہوٹل کے قریب ایک ریاستی مہمان خانے کی تعمیر شروع کی تھی۔ پہلی منزل پر کام تقریباً مکمل ہوچکا تھا اور دوسری منزل پر کام جاری تھا۔ کمشنر نے کام کی رفتار تیز کرنے کا حکم دیا۔ کیوں کہ اس نے اسے اپنی سرکاری رہایش کے لیے منتخب کیا تھا۔
نئی انتظامیہ کے زیادہ تر عملے کو باہر سے لایا گیا تھا۔ ان لوگوں کے لیے یہ ایک سنہرا موقع تھا۔ وہ جیسے مردہ ہاتھی کے باقیات پر گِدھوں کی طرح منڈلا رہے تھے۔ یہاں تک کہ چپڑاسی بھی دیگر اضلاع سے لائے گئے۔ وہ بھی اپنے لیے خوش حالی کا دور لے آئے۔ ’’بی آر‘‘ میں زیادہ تر عملہ ملاکنڈ، مردان اور پشاور سے آیا۔ علی محمد جان خان پی ڈبلیو ڈی ملاکنڈ سرکل کے پہلے سپرنٹنڈنگ انجینئر تھے۔ دفتری عملہ تھانہ یا پیرانو سے تھا۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے آپ کو خان خیل یا پیر کے طور پر پیش کیا۔
سابق ریاست ملیشا تحلیل ہوگئی اور بعض دفاتر کو پولیس کے محکمے میں ضم کر دیا گیا۔ غیر سواتی اہل کاروں کا عمومی رویہ فاتحین یا قابض مالکوں جیسا تھا۔ وہ مقامی اہل کاروں کو حقارت سے دیکھتے اور ان کی کم علمی کا مذاق اڑاتے۔ مثلاً، ایک اعلا سطح کے اجلاس میں، ایک سابق ریاستی افسر، جو اَب اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر کام کر رہا تھا، نے انگریزی میں کچھ الفاظ کہے۔ کمشنر نے اس کی کوشش پر ہنستے ہوئے کہا، "Mr. A.C, I am pleased to know you have brain also in your skull.” یعنی اے سی صاحب، مجھے خوشی ہے کہ آپ کی کھوپڑی میں دماغ بھی ہے۔
ان دنوں، ہم افسر آباد میں بنگلہ نمبر AB-3 میں رہتے تھے۔ جب کسی افسر کو سوات سے کسی دوسرے ضلع میں منتقل کیا جاتا، تو اس کے بیوی بچے غم میں مبتلا ہوجاتے۔ کوئی بھی واپس جانے کو پسند نہیں کرتا، حتیٰ کہ اپنے آبائی ضلع میں بھی۔ سوات میں تعیناتی کے دوران میں ان کا گھریلو سامان ایک پک اَپ میں لایا جاتا تھا اور واپسی پر تین یا چار ٹرک فرنیچر وغیرہ لے جانے کے لیے درکار ہوتے تھے۔ یہ سب انھوں نے اپنے قیام کے دوران میں حاصل کیا ہوتا تھا۔ ان کی طرف سے سب سے گھناؤنا عمل یہ تھا کہ جاتے وقت وہ ریاستی رہایش گاہوں سے لکڑی کی الماریوں اور چھت کے پنکھے تک اُتار کر اپنے ساتھ لے جاتے۔
سپیشل برانچ، کرائم برانچ اور سی آئی ڈی کے اہل کار مقامی اہل کاروں سے بہت خوف زدہ تھے، کیوں کہ انھیں اپنے اختیارات وغیرہ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ ہمارے دفتر میں، پشاور سے آنے والا ایک ہیڈ کلرک جو ہندکو بولتا تھا، ایگزیکٹو انجینئر سے بھی زیادہ مغرور تھا۔ ایک دن، اس نے ایک سواتی کلرک کے بارے میں توہین آمیز تبصرہ کیا۔ اس نے میز پر چھلانگ لگا کر اس کے گلے کو پکڑلیا اور اسے بری طرح مارا۔ ہم نے نوجوان سواتی سے اسے بچانے کے لیے دوڑ لگائی۔ کچھ دیر بعد، وہ ٹائپ رائٹر لایا اور کلرک کے خلاف رپورٹ ٹائپ کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت ایگزیکٹو انجینئر عبدالرحیم خان تھے۔ ڈی آئی خان سے تھے۔ وہ عملے کے درمیان سب سے زیادہ مقبول افسر تھے۔ انھوں نے رپورٹ پھاڑ دی اور ہیڈ کلرک سے کہا کہ وہ اپنی زبان پر قابو رکھے۔ مختصراً، اس وقت کا ’’سٹیٹس کو‘‘ غیر مقامی عناصرکے لیے ایک سنہری دور تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے