قیمتی پتھروں کا زندگی پر اثر

Journalist Comrade Amjad Ali Sahaab

میرے والد فضل رحمان المعروف علی رحمان (مرحوم و مغفور) اسلحہ رکھنے کے ساتھ چاندی کی قیمتی نگینوں والی انگوٹھیاں پہننے کا بھی شوق رکھتے تھے۔ زندگی کے آخری حصے میں وہ تقریباً دماغی توازن کھو بیٹھے تھے، جو اکیلے اُن کا نہیں، بل کہ اُن کے بڑے بیٹے کے ناتے میرا بھی ایک تکلیف دِہ دور تھا۔ آخری وقتوں میں اُن کے نہ صرف دونوں ہاتھوں کی اُنگلیوں پر قسم قسم کی انگوٹھیاں دیکھی جاسکتی تھیں، بل کہ انگوٹھے بھی ان سے خالی نہ ہوتے تھے۔ جتنا مجھے یاد ہے، ’’فیروزہ‘‘ والد مرحوم کے پسندیدہ قیمتی پتھروں میں سے ایک تھا۔
ہر انگلی میں پہنی گئی انگوٹھی میں جڑے نگینے پر اُنگلی رکھ کر مجھے سمجھاتے کہ ’’یہ فُلاں پتھر ہے اور اس کا زندگی پر یہ اثر ہوتا ہے۔‘‘ فیروزہ کے بارے میں اُن کا کہا اَب بھی مجھے یاد ہے کہ ’’اسے پہننے والے (یا ساتھ رکھنے والے) میں برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔‘‘
یہ سطور لکھتے وقت مَیں نے اپنی والدہ محترمہ سے پوچھا کہ کیا آپ کو والد مرحوم کی انگوٹھیوں بھری انگلیاں یاد ہیں؟ اُنھوں نے اولاً اثبات میں سر ہلا کر میری بات کی تصدیق کی، ثانیاً مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’تیرے والد پاگل تھے۔‘‘ مَیں نے اُنھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’نہیں ماں! وہ پاگل نہیں تھے۔ اُسے نہ سمجھنے والے (یعنی ہم) پاگل تھے۔‘‘
والد مرحوم کی ’’فیروزہ‘‘ بارے کہی ہوئی باتیں جو کچھ مجھے یاد تھیں، اُن کی روشنی میں تھوڑی سی تحقیق کی، تو ایک ماہرِ علم الاعداد اور نبض شناس عظمت علی کا تحقیقی مقالہ ’’ فیروزہ پتھر کے بارے میں تفصیلی معلومات‘‘ ہاتھ لگا۔ اس کا ایک حصہ اُنھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ پر بھی دیا ہے۔
مذکورہ مقالے میں وہ میرے والد مرحوم کی کہی ہوئی بات پر مہرِ تصدیق ان الفاظ میں ثبت کرتے ہیں:’’فیروزہ پہننے والے لوگوں کو ذہنی سکون ملتا ہے اور وہ عدم برداشت کا شکار نہیں ہوتے۔‘‘
مذکورہ مقالے میں موصوف فیروزہ کے کئی ایک فوائد بیان کرتے ہیں، جن کا حوالہ تحریر کی تنگ دامنی کی وجہ سے یہاں دینا مناسب نہیں۔ البتہ تحریر کی چاشنی برقرار رکھنے کے لیے اُن کے گنوائے ہوئے کچھ فوائد ملاحظہ ہوں:
٭ فیروزہ پتھر کو اپنے پاس رکھنے یا پھر انگلی میں پہننے والے کے نزیک غربت اور مفلسی نہیں آتی اور وہ خوش حال رہتا ہے۔
٭ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اس پتھر کو اپنے پاس رکھنے سے انسان خوف و خطر سے دور رہتا ہے اور اپنے دشمنوں پر بھی غلبہ پا جاتا ہے۔
٭ اس پتھر کو یادداشت بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ پتھر طالب علموں کے لیے اپنے اسباق کو یاد رکھنے کے لیے بہت ہی معاون ثابت ہوا ہے۔

قارئینِ کرام! قیمتی پتھروں کی مدد سے مختلف امراض کے علاج کے حوالے بھی مشہور ہیں۔ میرے ساتھ 1996 ء کی ایک پرانی ڈائری پڑی ہے، جس میں اشعار اور نثر پاروں کے علاوہ معلومات کا اچھا خاصا ذخیرہ تحریر شدہ حالت میں موجود ہے۔ مذکورہ ذخیرے میں ایک صفحہ ’’آیورویدک طریقۂ علاج‘‘ کے بارے میں بھی ہے۔ جس میں درج ہے کہ آیورویدک طریقۂ علاج یہی کوئی 10 ہزار سال پرانا ہے، لیکن آج بھی اس کے ماہر معالج موجود ہیں۔ اس میں قیمتی پتھروں اور نگینوں کی مدد سے کیے جانے والے علاج مختلف طریقے بھی درج ہیں۔
ڈائری کے مذکورہ صفحات پر تقریباً 13 مختلف قیمتی پتھر وں کی مدد سے مختلف امراض کے علاج کے طریقے درج ہیں۔ سرِ دست وہ قیمتی پتھر ملاحظہ ہوں، جو عام طور پر جانے جاتے ہیں:
٭ فیروزہ، غم و یاس دور کرنے کے لیے بہترین ہے۔
٭ زمرد، دردِ شقیقہ (Migraine) سے نجات پانے کے لیے بہترین ہے۔
٭ نیلم، قوتِ مدافعت کے لیے گویا اِکسیر ہے۔
٭ یاقوت، دِل اور خون کی بیماریوں سے نجات پانے کے لیے بہترین ہے۔
٭ عقیقِ احمر (سرخ عقیق)، الرجی کے خاتمے میں معاون ہے۔

برسبیلِ تذکرہ، اس حوالے سے فضل مولا زاہدؔ صاحب کی ایک طول طویل تحریر ’’بحرِ ہند کا آنسو‘‘ کا آخری حصہ، جو 12 اپریل 2018ء کو لفظونہ ڈاٹ کام پر شائع ہوا تھا، یاد آیا۔ وہ مذکورہ تحریر میں اپنا تجربہ کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’دنیا میں موجود ہیرے جواہرات کی 85 اقسام میں یہی کوئی آدھی سری لنکا میں پائی جاتی ہیں، جن میں روبی، کیٹ آئی، ٹوپاز، زرقون، سیلون بلو وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ہم نہیں کہتے ’مسٹر جوزف‘ کہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ہیرے جواہرات کی تراش خراش کے ماہر اور خرید و فروخت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کی بیگم ’اینڈریا‘ مختلف ’ہیلنگ اسٹونز‘ (Healing Stones) کے ذریعے کئی بیماریوں کے علاج میں اسپیشلسٹ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اسٹون زندہ ہوتا ہے اور اس کا بہ طریقِ احسن استعمال زندگی کو شفا بخشتا ہے۔ انور حیات فوری طور پر ان کا کہا ’اِنڈورس‘ کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ بھی ’اسی دشت کی سیاحی‘ میں بال سفید کرچکے ہیں۔ بیماریوں کے علاج کے لیے وہ اسٹونز کی کیمیائی خصوصیات کا وسیع علم رکھتی ہیں اور کولمبو کے کئی لوگ باقاعدہ طور پر ان سے مفت مشورہ اور علاج کے لیے آتے ہیں۔ اس بارے اُن کا مشاہدہ بہت گہرا ہے۔ اس طریقۂ علاج میں مخصوص پتھر، مخصوص مقدار میں، مخصوص وقت کے لیے پانی میں رکھا جاتا ہے ۔ پھر اس پانی کو پیا جاتا ہے۔‘‘
اب آتے ہیں اپنے شہر مینگورہ (ضلع سوات) کی طرف۔ سہراب خان چوک میں شاہ روان پلازے کی عقب والی گلی میں تین چار قیمتی پتھر، نگینے اور چاندی کی انگوٹھیاں بیچنے والے بیٹھتے ہیں، جن کے پاس قیمتی پتھروں کا شوق پالنے والوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ نور محمد جو اِسی مینگورہ شہر کے باسی ہیں، ساٹھ سال کے پیٹے میں ہیں، ایک چھوٹا سا شو کیس سامنے رکھے مختلف قیمتی پتھر، نگینے اور چاندی کی انگوٹھیاں بیچتے ہیں۔ نور محمد، جواہر کا زندگی پر اثر کے بارے میں کہتے ہیں: ’’وہ جواہر یا قیمتی پتھر جن کا ہماری تقدیر پر اثر ہوتا تھا، اب اُن کا ملنا مشکل ہے۔ وہ دراصل یمن، انڈونیشیا یا ایران وغیرہ سے آیا کرتے تھے۔ جیسے اُوپل کو لے لیں، جو ایک قیمتی پتھر ہے۔ یہاں بھی دست یاب ہے، مگر اُسے خریدنے کی طاقت کم ہی لوگ رکھتے ہیں۔‘‘
نور محمد آگے کہتے ہیں: ’’یاقوت بھی نہایت قیمتی پتھر ہے۔ ہمارے ساتھ کنڑ (افغانستان) کا یاقوت دست یاب ہے، جسے ہمارے بیوپاری ماضیِ قریب میں بینکاک اور تھائی لینڈ جیسی بڑی منڈیوں تک لے جاتے اور وہاں اچھا خاصا منافع حاصل کرتے۔‘‘
مینگورہ شہر کے حوالے سے نور محمد کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس بازار میں یاقوت، مرجان (اٹلی سے حاصل شدہ)، لاجبر، فیروزہ(اصل ایرانی)، عقیق، زمرد (سواتی) دست یاب ہیں، مگر صوبہ خیبر پختون خوا میں ان پتھروں کی بڑی منڈی پشاور ہے۔
مینگورہ شہر ہی کے 61 سالہ امن خان، جو ’’چاچا چاول‘‘ (نیو روڈ) کے عین سامنے شو کیس سجائے بیٹھتے ہیں، کہتے ہیں: ’’نوجوانی کی عمر سے انگوٹھیاں، نگینے،جواہر یا قیمتی پتھر بیچنے کا کام کرتا ہوں۔ یہ ایک طرح سے میرا شوق ہے اور مثل مشہور ہے کہ شوق کا کوئی مول نہیں۔ ہمارے کام میں ماہر اُسے سمجھا جاتا ہے، جو اصل اور نقل کی پرکھ جانتا ہے۔‘‘
امن خان کہتے ہیں کہ جو قیمتی پتھر اُنھیں پسند آتا ہے، اُسے خرید لیتے ہیں۔ پھر جب کوئی اور پسند آتا ہے، تو یا تو آپس میں پتھروں کا تبادلہ کردیتے ہیں یا اُسے قیمتاً خرید لیتے ہیں۔ ’’یہاں شوکیسوں میں سجا بیش تر مال عام مال ہی ہوتا ہے۔بیش تر شیشے کو تراش کر ایک خوش نما نگینہ سا بنایا گیا ہوتا ہے۔ میری انگلیوں پر سجی انگوٹھیوں میں اس وقت عقیق، فیروزہ اور یاقوت کے نگینے جڑے ہیں۔‘‘
امن خان کے مطابق، مینگورہ شہر کے جواہرشناسوں میں اس وقت عقیق، فیروزہ، یاقوت، نیلم، بیروج، زمرد اور ہیرا پاس رکھنے کا شوق عام ہے۔
یہاں کسی ماہر جوہری کے بغیر سودا گھاٹے کا سودا ہی ثابت ہوتا ہے۔ امن خان کے بہ قول، ’’ہر پتھر دس سے لے کر پندرہ قسم کے رنگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں کھرے اور کھوٹے کا فرق ایک ثقہ جوہری ہی کرسکتا ہے۔‘‘
امن خان کہتے ہیں کہ انگوٹھیوں، نگینوں، جواہر یا قیمتی پتھروں کا شوق کسی نشہ سے کم نہیں ہوتا۔ کسی بھی قسم کے نشے سے آدمی چھٹکارا پا سکتا ہے، مگر جواہر کا شوق پالنے والا ان سے تادمِ آخر چھٹکارا نہیں پا سکتا۔‘‘
مینگورہ شہر کے جوہریوں کو سننے کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا کہ نئی نسل چوں کہ موبائل فون اور ڈیجیٹل ڈیوائسز کی شیدائی ہے، اس لیے اُن کا اس طرف بالکل رجحان نہیں۔ اس حوالے سے امن خان کہتے ہیں کہ چالیس سال سے کم عمر کے افراد میں جواہر کا شوق نہ ہونے کے برابر ہے اور جتنے ثقہ جوہری ہیں، اُن کی عمریں پچاس سے اوپر ہیں۔
(یہ تصویر دسمبر 2023ء کو جمعہ بازار مینگورہ میں لی گئی ہے اگر یہ اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.com پر رابطہ فرمائیں، شکریہ)
 ……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے