ایچ آئی وی/ ایڈز (مختصر جائزہ)

Blogger Doctor Noman Khan Chest Specialist

ایچ آئی وی ایک ایسا وائرس ہے، جو انسان کے مدافعتی نظام کو کم زور کرتا ہے اور بیماری سے لڑنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اگر بروقت اِس کا علاج نہ کیا جائے، تو یہ وائرس ایڈز کا سبب بنتا ہے، جس میں انسانی مدافعتی نظام کم زور پڑجاتا ہے۔
اس وقت تک دنیا بھر میں ایچ آئی وی کا کوئی خاص موثر علاج موجود نہیں۔ ایک دفعہ ایچ آئی وی لاحق ہوجائے، تو زندگی بھر ساتھ رہتا ہے…… لیکن مناسب طبی دیکھ بھال اور موزوں علاج سے سے اس مرض پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ متاثرہ شخص لمبی اور صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوسکتا ہے اور اپنے لائف پارٹنر کو اس بیماری سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
٭ ایچ آئی وی کہاں سے آیا؟
ایچ آئی وی وائرس کا پتا اُس وقت چلا، جب 1981ء میں امریکہ میں کچھ نوجوان ہم جنس پرستوں میں دو ایسی بیماریاں بڑھنے لگیں، جو کہ عام طور پر بہت کم پائی جاتی تھیں اور جن کو موقع پرست انفیکشن (نیمو سیسٹس کیرینائی نمونیا اور کیپوسس سارکوما) کہا جاتا ہے۔ تقریباً دو سال تک ڈاکٹر اس کھوج میں لگے رہے کہ اس کی وجہ کیا ہے اور آخرِکار 2 سال کے بعد ایچ آئی وی وائرس دریافت کیا گیا۔
اس تعلق کو یوں سمجھایا جاسکتا ہے کہ 1976ء سے لے کر 1980ء تک امریکہ میں ’’نیمو سیسٹس کیرینائی نمونیا‘‘ کا صرف ایک کیس تشخیص کیا گیا تھا۔ 1980ء سے لیکر 1981ء تک 42 کیس اور دسمبر 1994ء تک 127600 کیس رپورٹ ہوئے۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا کہ ایڈز کے مریضوں میں ’’کیپوسی سارکوما‘‘ عام لوگوں کے مقابلے میں 30 ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ جنسی تعلقات کی وجہ سے ایچ آئی وی کے پھیلاو کی وجہ سے اس بیماری کو ’’کلنک کا ٹیکا‘‘ یعنی بدنما داغ تصور کیا جاتا ہے، جو کہ اس بیماری کے بروقت تشخیص میں ایک رکاوٹ ہے۔
ایچ آئی وی وائرس ابتدائی طور پر چمپینزی بندروں سے انسان میں منتقل ہوا اور آہستہ آہستہ افریقہ بھر میں پھیلتا گیا۔ وہاں سے پھر دنیا بھر میں منتقل ہوگیا۔
ایچ آئی وی وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص کو بلڈ ٹرانسفیوژن، متاثرہ/ استعمال شدہ سرینج، استعمال شدہ بلیڈ یا ریزر، جنسی تعلقات (خاص طور پر مردوں میں ہم جنس پرستی یا ایک سے زیادہ جنسی تعلق استوار کرنے) اور پیدایش کے وقت متاثرہ ماں سے نومولود بچے کو منتقل ہوجاتا ہے۔
ایچ آئی وی وائرس کی دو اقسام ہیں:
٭ ایچ آئی وی ون۔
٭ ایچ آئی وی ٹُو۔
ایچ آئی وی وائرس کی علامات:
ایچ آئی وی مدافعتی نظام کے ہیلپر T خلیوں (جن کو سی ڈی 4 پلس بھی کہا جاتا ہے) کی کمی کا سبب بنتا ہے، جس کی وجہ سے مریض انفیکشن کے سامنے بے بس ہوجاتاہے اور وہ جراثیم بھی انسان میں بیماری پیدا کرسکتے ہیں، جو عام طور پر کسی گنتی میں شمار نہیں ہوتے۔ ایسے جراثیم کو ’’اپرچونیسٹیک‘‘ یعنی موقع پرست جراثیم کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سی ڈی 4 پلس خلیوں کی کمی بعض کینسر کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
علامات کے لحاظ سے ایچ آئی وی انفیکشن کو تین مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1) اکیوٹ سیرو کنورژن:۔ ایچ آئی وی وائرس انسانی جسم میں داخل ہونے کے 4 تا 11 دن کے اندر اندر خون کے ذریعے پورے بدن میں سرایت کرتا ہے۔ اس حالت کو جب کہ وائرس خون کے اندر موجود ہوتا ہے، ’’وائریمیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس مرحلے کے دوران میں انفیکشن ہوجانے کے بعد بدن میں وائرس کا ایک ذخیرہ بن جاتا ہے، جو کہ وقتاً فوقتاً وائرس کو خون میں شامل کرتا رہتا ہے۔ اس مرحلے میں تقریبا آدھے سے زیادہ لوگوں کو بخار، فلو، گلٹی بن جانا اور خارش ہوتی ہے۔
2) غیر علامتی مرحلہ:۔ اس مرحلے کے دوران میں مریض کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور یہ مرحلہ کئی سالوں سے لے کر ایک دہائی تک پر محیط ہوسکتا ہے۔ اس مرحلے میں وائرس کا لوڈ تو تقریباً ایک ہی حالت میں برقرار رہتا ہے، لیکن سی ڈی 4 پلس کی تعداد بہ تدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر اس مرحلے کے ابتدائی دنوں کے دوران میں علاج کیا جائے، تو وہ زیادہ موثر ہوگا، بہ نسبت آخری وقت پر علاج کرنے کے۔
3) ایڈز:۔ جب کسی ایچ آئی وائرس سے متاثرہ شخص کا مدافعتی نظام اتنا کم زور پڑجائے کہ اس کو ’’اپرچونیسٹیک انفیکشن‘‘ ہونا شروع ہوجائے، تو اس مرحلے کو ’’ایڈز‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی ’’ایکوائرڈ ایمیونو ڈیفیشنسی سینڈروم۔‘‘ اس مرحلے کو ’’ڈایگنوز‘‘ کرنے کے لیے اکثر سی ڈی 4 پلس کو ناپا جاتا ہے اور اگر یہ خلیے 200 سے کم ہوں، تو عام طور پر ایڈز کی تشخیص ہوجاتی ہے، لیکن کبھی کبھار سی ڈی 4 پلس دو سو سے اوپر ہو، تب بھی اپرچونیسٹیک انفیکشن ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار اس لیول سے کم پر بھی نہیں ہوتے۔
ایڈز کے مریضوں میں عام طور پر درجِ ذیل اپرچونیسٹیک انفیکشنز ہوجاتے ہیں:
٭ فنگل انفیکشنز:۔ خاص طور پر کینڈیڈیسس پھیپھڑوں، سانس کی نالیوں اور خوراک کی نالیوں کے فنگل انفیکشنز/ کینڈیڈیسس، اس کے کرپٹوکوکل انفیکشنز اور کوکسیڈیو مایکوسس جیسے فنگل انفیکشنز اور سروائکل کینسر شامل ہیں۔
٭ سائٹو میگیلو وائرس انفیکشنز اور ایچ آئی وی ریلیٹڈ دماغی امراض۔
٭ کیپوسی سارکوما اور لیمپوما۔
٭ مائکوبیکٹیریل ٹیوبرکلوسس۔ پلمونری اور ایکسٹرا پلمونری، کلاسک اور اینوائرمینٹل۔
٭ نیمو سیسٹس کیرینائی نمونیا اور ایچ آئی وی ریلیٹڈ ویسٹینگ سینڈروم۔
٭ سلمونیلا اور ٹاکسو پلازموسس انفیکشنز۔
اگر ایچ آئی وی انفیکشن کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو تقریباً 90 فی صد متاثرہ مریض 8 سے 10 سال کے عرصے میں فوت ہو جاتے ہیں۔ اگر ایچ آئی وی انفیکشن تیسرے مرحلے (ایڈز) میں داخل ہو جائے، تو پھر علاج کے بغیر دو سال سے کم عرصے میں مریض فوت ہوجاتا ہے۔
اینٹی وائرل میڈیسن اور اپرچونیسٹیک انفیکشنز کے حفظِ ماتقدم کے لیے استعمال ہونے والے دوائیوں سے مریض کی بقا کے چانسز ڈرامائی طور پر بڑھ جاتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے