لواری ٹنل بننے سے ہمیں ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ ہم جو زیارت میں رُک کر کھابا کھایا کرتے تھے۔ وہ عیاشی ختم ہوگئی ہے۔ کھابا کیا، بل کہ آپ اسے ’’کھابستان‘‘ کَہ سکتے ہیں، جسے بسایا کرتے تھے۔ وہ خوشگوار یادیں بھی اس ٹنل کی نذر ہوگئیں۔
زیارت کے چھپر ہوٹلوں پر پہاڑی بکرے کے شوربے کے ساتھ تندور کی گرما گرم روٹی ڈبو ڈبو کر کھانے کا بھی ایک وکھرا سواد تھا۔ انتہائی سادہ مزاج اور شریف النفس لوگ تھے۔ بہت سستے داموں میں دست یاب تھے۔ جتنے پیسے وہ روٹی کے لیتے تھے۔ اس سے کہیں مہنگا تو اُن کا حسنِ سلوک تھا، جو وہ ہمارے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اُن کے کھانے بڑے سوادیسٹ ہوتے۔ انتہائی صاف ستھرے بغیر کسی ایکسٹرا مرچ مسالے کے، کہ جیسے اپنے گھر کا پکا کھانا ہو۔ اب تو زیارت کی زیارت ہی خواب ہوچکی ہے۔ خیر، اَب کیا کیا جا سکتا ہے۔ ’’اس طرح تو ہوتا ہے پھر اس طرح کے کاموں میں۔‘‘ کیوں کہ اب فاصلے جلد سمٹ جاتے ہیں اور دیر سے چلنے کے بعد کہیں رُکنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
لواری ٹاپ سے لے کر پاتال تک کے سفر میں سوائے موڑ در موڑ گھوم گھوم کر نیچے سے نیچے اُترنے کے علاوہ کوئی اور دل چسپی بھی تو نہیں ہوتی تھی۔ ہم ایک ہی منظرنامے میں پھنس کر رہ جاتے تھے۔ کولہو کے بیل کی طرح تقریباً ایک ہی راہ اور ایک ہی جگہ پر چکر کاٹتے ڈیڑھ دو گھنٹے لگ جاتے۔ ہم اس خوف ناک بوریت کا حل یہ نکالتے کہ لواری پاس سے اترائی پر اس کے موڑ گننا شروع کر دیتے۔ کل 54 کے قریب بڑے بڑے گھومتے ہوئے تنگ سے موڑ تھے۔ ہر موڑ ایک پُرخوف سی نئی امید اور ایک نئی اُمنگ کا استعارہ لگتا تھا۔ اُترائی پر ہر موڑ فاصلوں کو سمیٹتا ہوا نیچے سے نیچے ہمیں اپنی منزلِ مقصود کے قریب سے قریب تر لیے جاتا تھا۔ بعینہٖ واپسی پر یہی بل کھاتی چڑھائیوں کے موڑ ہمیں اوپر سے اوپر لیے جاتے، لواری ٹاپ تک لے جاتے تھے۔
پروگرام کے مطابق اب ہمارا اگلا عارضی پڑاو دروش کے شہر میں تھا، مگر دروش شہر ابھی تھوڑا دور تھا۔ لواری ٹنل کراس کرنے کے بعد پہلی اہم جگہ میرکھنی کی چوکی آتی ہے۔ یہاں سے دریائے چترال اپنا رُخ موڑ کر افغانستان کی طرف چلا جاتا ہے۔ دریا کے ساتھ ساتھ 31-32 کلومیٹر چلتے جائیں، تو آگے ارندو آتا ہے، جس کے آگے افغانستان کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔ یہ وہی رستہ ہے، جسے سردیوں میں جب لواری ٹاپ برف باری کی وجہ سے بند ہوجاتا تھا، یا پھر کسی سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہوجاتا، تو لواری ٹنل بننے سے قبل پاکستان تک پہنچنے کے لیے اختیار کیا جاتا تھا۔ جب ارندو سے گزر کر افغانستان کے صوبہ کنڑ کے رستے سے ہوتے ہوئے پشاور تک پہنچنا پڑتا تھا۔ ظاہر ہے واپسی پر بھی چترال تک پہنچنے کے لیے یہی رستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔
ریاستِ چترال، ہندوکش کی سب سے بڑی ریاست تھی۔ جب کہ اس کے مقابلے میں ارد گرد کی بقیہ تمام ریاستیں نسبتاً چھوٹی تھیں، جنھیں غیر منظم جمہوریہ یا ’’ڈس آرڈرلی ریبلکس‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ چترال کے شمال میں ہنزہ و نگر کی ریاستیں تھیں۔ جب کہ شمال میں ریاست واخان، مغرب میں افغان ریاستیں بدخشاں و نورستان تھیں، جو مہتر امان الملک کے دور میں چترال کا حصہ رہیں۔ جنوب میں ریاستِ دیر اور سوات واقع تھیں۔ چترالی ریاست کا شمال چوں کہ سلطنتِ روس کے ساتھ لگتا تھا، لہٰذا برصغیر پر قابض اُس وقت کی برطانوی حکومت چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح ریاست چترال کو مضبوط کرکے اس سے برصغیر اور روس کے درمیان ’’بفر سٹیٹ‘‘ کا کام لیا جائے۔ پچھلے تین سو سال سے زائد عرصے سے چترال پر چوں کہ کٹور خاندان حکم ران تھا۔ لہٰذا انگریزوں نے ریاستِ دیر کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے کے بعد چترال میں کٹور خاندان کی حکومت سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اٹک سے لے کر دیر اور پھر لواری پاس کے دوسرے پار چترال تک باقاعدہ سڑک تعمیر کی۔ ورنہ اس سے پہلے چترال تک کوئی باقاعدہ زمینی رستہ نہ تھا۔
لیفٹیننٹ کرنل شہزادہ افتخار الملک ریاستِ چترال کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’اوراقِ پریشاں‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’مہتر امان الملک (1856ء تا 1892ء) کے زمانے میں ریاستِ چترال کے نورستان کی طرف اس کی حدود ڈوفرین جھیل سے لے کر بدخشاں میں توپ خانے کے علاقے تک پھیلی ہوئی تھیں۔ توپ خانے کا یہ علاقہ درۂ دوارہ پر واقع شاہ صدیم سے کچھ آگے واقع ہے، جہاں ریاستِ چترال کی آخری سرحدی چوکی ہوا کرتی تھی۔ مشرقی سمت میں گلگت کا علاقہ تانگیر بھی بہ طور نیم آزاد علاقہ چترال میں شامل تھا۔ نیز دیر کوہستان اور سوات کوہستان کے علاقے بھی ریاستِ چترال کی عمل داری میں شامل تھے، جنھیں مجموعی طور پر بشقار کہا جاتا تھا۔‘‘
کم و بیش چترال کی ایک ہزار سالہ پرانی تاریخ کے مطابق چترال کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے۔ تبت کے لوگ اسے ’’بلور‘‘، خراسان کے لوگ ’’قشقار‘‘ جب کہ چینی اسے ’’ترکستان‘‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ اسی طرح یہ ’’دردستان‘‘، ’’کھوستان‘‘، ’’کاش گار‘‘ اور ’’چھترار‘‘ کے ناموں سے بھی پکارا جاتا رہا۔ کبھی چترال، سنکیانگ کا حصہ ہوتا تھا۔ اُس دور میں اسے ’’کاشغر خورد‘‘ یعنی چھوٹا کاشغر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ پانچویں صدی عیسوی میں چین سے آنے والے قبائلی اسے ’’کاش گار‘‘ کَہ کر پکارتے تھے۔ مارکوپولو جو کبھی واخان کے علاقے میں سے گزرا تھا۔ اُس نے اسے ’’بلور‘‘ کا نام دیا۔ البیرونی انھیں ’’ترکمان‘‘ کہتا تھا۔
موجودہ نام چترال کے بارے میں کہا جاتا یے کہ اصل لفظ ’’چھترار‘‘ ہے۔ کیوں کہ اب بھی یہاں کے بہت سے مقامی لوگ بالخصوص پرانے بزرگ اسے ’’چھترار‘‘ کَہ کر پکارتے ہیں۔
چترال چاروں طرف سے اونچے اونچے پہاڑی علاقوں میں گھرا ہوا ہے۔ کوئی بھی سیدھا صاف اور ہم وار رستہ چترال تک نہیں جاتا۔ بر صغیر پاک و ہند کی جانب سے لواری پاس والا رستہ ہے، جسے اب لواری ٹنل بنا کر تھوڑا آسان کر دیا گیا ہے۔ ورنہ چترال کو ملانے والے دوسرے تمام دروں کی طرح یہ درہ بھی شدید برف باری کی وجہ سے بند ہو جاتا تھا۔ شمال کی طرف سے چترال پہنچنے کا رستہ واخان کی وادی کی طرف سے ہے، جس کا درہ سطحِ سمندر سے 12480 فٹ بلند ہے۔ اس کے علاوہ درۂ اگرام، درۂ تکسان، درۂ خاٹینزہ، درۂ سد استیراغ، درۂ کھوت گاز، درۂ انوشاہ، درۂ پھورنسینی، درۂ اوچیلی، درۂ کان خون بھی چترال کو واخان سے ملاتے ہیں۔ چترال کے شمال مغربی سائیڈ سے درۂ دوراہ کی طرف سے بدخشاں، بلخ، خان آباد اور مزار شریف تک رسائی ہے۔ اسی طرح درۂ درکوت ہے، جسے پار کرکے بدخشاں اور درکوت تک پہنچا جاسکتا ہے۔ مشرق میں گلگت بلتستان کی طرف درۂ شیندور آتا ہے۔ اسے کراس کرنے کے بعد ریاست ورشگوم یعنی موجودہ ضلع غذر اور گوپس وغیرہ کے علاقے کی طرف جایا جاسکتا ہے۔
اسی طرح افغانستان کے صوبے نورستان کی طرف دو عدد درے یعنی درۂ ارندو اور درۂ ارچون کراس کرکے ہی پہنچا جاسکتا تھا۔ یوں بقیہ ارد گرد کے علاقوں کے مقابلے میں چترال کا علاقہ قدرتی طور پر چاروں طرف سے نسبتاً محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔ ہاں کوئی اس علاقے تک پہنچتا بھی، تو کسی اونچے درے کو پار کرکے، اور وہ بھی صرف گرمی کے دنوں میں، جب برف پگھل جانے کی وجہ سے رستہ صاف ہو جاتا تھا۔
کٹور خاندان نے پڑوسی ریاستوں کو ملانے والے ان پہاڑی دروں والے رستوں پر نظر رکھنے کے لیے ان پر مختلف دفاعی قلعہ جات تعمیر کروا رکھے تھے، جیسے:
٭ شاہی قلعہ تورکھو:۔ اسے درۂ درکوت اور بدخشاں کے رستے پر بنایا گیا تھا۔
٭ شاہی قلعہ مستوج:۔ اسے درۂ شیندور، درہ بروغل یعنی اُس وقت کے علاقے ریاست ورشگوم اور واخان کے رستے پر بنایا گیا تھا۔
٭ شاہی قلعہ دراسن:۔ اسے بھی درہ درکوت اور بدخشاں کے رستوں پر نظر رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
٭ شاہی قلعہ دروشپ:۔ یہ قلعہ افغانستان کی طرف سے آنے والے حملہ آوروں پر نظر رکھنے کے لیے درۂ دوارہ، بدخشاں اور نورستان کے رستے پر بنایا گیا۔
٭ شاہی قلعہ شغور:۔ اس قلعے کو بھی اس سے اوپر بیان کیے گئے رستوں یعنی درۂ دوارہ، بدخشاں اور نورستان کے رستوں پر تعمیر کیا گیا۔
٭ شاہی قلعہ دروش:۔ اسے درۂ لواری اور درۂ ارچون کے رستوں پر بنایا گیا۔
٭ شاہی قلعہ دمیڑ نثار:۔ اس قلعے کی تعمیر درۂ ارندو و نورستان کی نگہ بانی کے لیے کی گئی۔
٭ شاہی قلعہ نگر:۔ اس قلعے کو بھی افغانستان کی طرف سے درۂ ارچون اور نورستان کے رستے پر بنایا گیا تھا۔
قارئین! اب ہم اُس جگہ پر تھے جہاں ایک موڑ مڑ کر تھوڑا آگے شاہی قلعہ نگر آتا ہے۔ یہ قلعہ اُسی دریائے چترال پر ہے، جو 32 کلومیٹر آگے افغانستان میں جا کر دریائے کنڑ کہلاتا ہے۔ یہاں سے دو رستے بنتے ہیں: دائیں طرف کو ایک رستہ دریائے چترال کے پانیوں کے ساتھ چل کر افغانستان کے صوبے کنڑ تک لے جاتا ہے، جب کہ دریائی پانی کے بہاو کی مخالف سَمت میں آگے چلتے جائیں، تو یہ رستہ اوپر چترال تک لے جاتا ہے۔
ارندو کی وادی چترال کی تمام وادیوں میں سب سے کم بلندی پر واقع ہے، جو کہ سطحِ سمندر سے 3377 فٹ بلندی پر ہے۔ ہندو کش کا پہاڑی سلسلہ یہاں کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے، جس کی سب سے اونچی پہاڑی چوٹی ترچ میر ہے۔ ترچ میر کی بلندی سطح سمندر سے 25230 فٹ ہے، جسے پہلی بار سنہ 1952ء میں ناروے کے کوہ پیماؤں نے سر کیا تھا۔ یہ چوٹی دور سے دیکھنے پر شہرِ چترال کے سر کا تاج لگتی ہے۔ سر پر سفید کلاہ پہنے، بہت دل کش چوٹی ہے، جو سارا سال برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ جب کہ چالیس سے زیادہ چوٹیاں ایسی بھی ہیں کہ جن کی بلندی 20 ہزار فٹ سے بلند ہے۔
اس پہاڑی سلسلے کو ہندو کش کا نام سنہ 1334ء میں ایک مسلمان سیاح ابنِ بطوطہ نے دیا تھا۔
چترال چوں کہ چاروں طرف سے قدرتی حصار میں بلند پہاڑوں میں گھرا ہے، اس لیے اس وادی سے نکلنے اور داخل ہونے کے تمام راستے پہاڑی دروں میں سے ہوکر گزرتے تھے، جو اونچے ہونے کی وجہ سے عموماً برف سے ڈھکے ہوتے تھے۔ انھیں کراس کرنا، خاص طور پر سردیوں کے موسم میں کراس کرنا، نہ صرف بہت مشکل ہوتا تھا، بل کہ یہ ایک جان لیوا ’’رسک‘‘ ہوتا تھا۔ شدتِ موسم سے لب ریز یہ تنگ و تلخ راستے کئی ایک لوگوں کی جان لے لیتے تھے۔ غالباً اسی وجہ سے ابنِ بطوطہ نے اسے ہندو کش کا نام دیا تھا۔
لواری ٹاپ سے لے کر یہاں میر کھنی تک مسلسل اترائی ہے۔ جوں ہی ایک موڑ مڑ کر شگر قلعہ کے سامنے پہنچتے ہیں، تو یہاں گرمی کے موسم میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ میر کھنی سے لے کر دروش، کلکٹک، کیسو اور گہریت و ایون موڑ تک کا سارا رستہ گرمیوں میں شدید گرم ہوتا ہے۔ البتہ اتنا گرم تو نہیں کہ جتنا بابو سر ٹاپ سے نیچے اتر کر چلاس میں ہوتا ہے، مگر پھر بھی یہاں کافی گرمی ہوتی ہے۔
چلاس کی گرمی اور یہاں کی گرمی میں فرق یہ ہوتا ہے کہ چلاس میں حدت دھوپ کی تند و تلخ شعائیں کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں۔ قدرتی طور پر سورج کی شعاؤں کا کوئی ایسا زاویہ بنتا ہے کہ سورج کی سیدھے رُخ زمیں پر گرتی آگ بگولا دوزخی شعاعیں جسم کو جلا کر بھسم کر دینے کے در پر ہوتی ہیں۔ چلاس اور اس کے ارد گرد والے پہاڑ اسی تیز دھوپ کی کاٹ کا شکار ہو کر سڑ سے گئے ہیں اور دور سے دیکھنے پر جلے جلے سے نظر آتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ یہاں سورج کی شعاعوں کی تندی ہی سلاجیت کی پیداوار کا باعث بنتی ہے۔ انھی تیز اور کاٹ دار شعاعوں کے مسلسل پڑنے سے یہاں ارد گرد کے پتھروں سے ایک گاڑھا سا سیال مادہ نکل کر ان پر جم جاتا ہے، جسے بعد میں اتار کر نیچے لایا جاتا ہے اور پھر اسی میں سے سب سے عمدہ سلاجیت کشید کی جاتی ہے، جسے پاکستان میں ملنے والی عمدہ ترین سلاجیت کہا جاتا ہے۔
جب کہ یہاں میرکھنی اور اس کے ارد گرد کے پہاڑ کافی گرم پہاڑ تو ہیں، مگر یہاں دھوپ نسبتاً کم کاٹ دار اور کم تلخ ہوتی ہے۔ پھر بھی جب ہم وہاں تک پہنچے، تو اس وقت وہاں کا درجۂ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔
ہم تو ٹھنڈی گاڑی کے اندر بند مزے میں تھے، جب کہ ہمارے تمام بقیہ ساتھی اپنی اپنی بائیک پر سوار ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ہمیں فکر تھی تو اُن کی تھی۔ اُن میں سے کچھ تو جیسے محمد حنیف زاہد، محمد نواز، حافظ ندیم، رانا عدنان، سجاد مصطفائی، نعمان نومی، محمد اشفاق اور نوید بلال کھیڑا جیسے تنومند اور جواں سال تھے، تو کچھ مولوی زبیر گورداس پوری، جہان خان اور ریاض شوہن جیسے 50 سال کے ادھ کھڑ جوان نما تھے۔ ہمیں یہاں کی حدت گرمی سے ان ادھ کھڑوں کے کھڑکنے کا زیادہ خطرہ تھا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ
کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں
کھڑکیوں کے کھڑکنے سے کھڑکتا ہے کھڑک سنگھ
جب کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکیاں کھڑک سکتی ہیں، تو ہمارے مولانا زبیر کے کھڑکنے سے چلو کوئی پوری کھڑکی نہ سہی، اس کا کوئی ایک تختہ یا کوئی نہ کوئی ایک آدھ کیل قابلہ تو ضرور کھڑک سکتا تھا۔
زبیر صاحب، زبیر سنگھ تو نہیں، ہاں البتہ دیکھنے میں کچھ کچھ سنگھانہ شکل و شباہت رکھتے ہیں۔ وہ ہمہ وقت جیب میں کنگھی بھی رکھتے ہیں، چہرۂ انور پر بالشت بھر سفید داڑھی کی بہار بھی ہے۔ کیوں کہ وہ تھوڑا علم و عرفان میں آگے ہونے کی وجہ سے تھوڑا جدت پسند ہیں۔ شاید اس لیے وہ اپنی بغل میں کرپان وغیرہ تو نہیں، ہاں! جیب میں ایک چھوٹا چاقو رکھنا پسند کرتے ہیں۔ جب کہ کیس کے معاملے میں ان کا کیس تھوڑا کم زور ہے۔ ہاں! اگر کیس کہیں وجود رکھتا بھی ہے، تو وہ کوئی خفیہ ہو سکتا ہے۔ ورنہ بہ ظاہر کیس والا کوئی کیس نہیں۔
ہمیں ڈر تھا تو یہ کہ اگر گرم گرم ہوا کے تند تھپیڑوں سے ان تینوں دوستوں میں سے کوئی ایک بھی کھڑک گیا تو…… فیر تے تاراں کھڑک جانیاں نیں!
جب مَیں نے اپنے اندر کے ڈر کا زبیر صاحب سے ذکر کیا، تو وہ فرمانے لگے کہ ایسی بھی ڈر والی کوئی بات نہیں۔ آپ اپنے خدشات کو اپنے دل سے جھٹک کر دریائے چترال کے ٹھنڈے پانیوں میں پھینک کر شانت ہوجائیں۔ کیوں کہ ان کے نزدیک……
’’کھڑکنا پھڑکنا، پھڑک کر کھڑکنا‘‘
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
مَیں نے پھر بھی ان سے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ کہیں آپ کھڑکتے، پھڑکتے پھڑک کر کھڑکتے پھڑک ہی گئے تو…… پھر ’’تیرا کیا ہو گا کالیا! ‘‘
کہنے لگے کہ یہ بات پکی ہے کہ اتنی گرمی سے تو میں کھڑک کر پھڑکنے والا نہیں ہوں۔ مَیں شدید ملتانی گرمی کا عادی ہوں۔ ہاں، اگر فرشتہ ازل نے آ کر کھڑکا دیا، تو پھر اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ فرشتۂ ازل یہاں تشریف لائے، بل کہ اس کے اختیارات لا محدود ہیں۔ اسے کہیں سے کسی قسم کی کوئی اجازت لینے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ جب چاہے، جہاں بھی چاہے جاسکتا ہے۔ ویسے اسے اتنا لمبا سفر کرکے ہمارے پیچھے یہاں پہاڑوں میں تشریف لا کر دھکے کھانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے……!
مَیں تو اس کا ذاتی قسم کا آسان ترین کیس ہوں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










