موجودہ دور میں صحافت (Journalism) کی اصل روح ختم ہوتی جا رہی ہے اور اس کی جگہ سرگرمی (Activism) نے لے لی ہے۔
صحافت کا بنیادی مقصد ہمیشہ سے عوام کو غیر جانب دار اور مستند معلومات فراہم کرنا تھا، تاکہ وہ خود اپنے فیصلے کرسکیں…… لیکن آج کا میڈیا ایک خاص بیانیے کو فروغ دینے میں مصروف نظر آتا ہے۔ خبروں کو پیش کرنے کا انداز بدل چکا ہے اور زیادہ تر صحافی کسی نہ کسی سیاسی یا نظریاتی وابستگی کے تحت کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم واقعی جرنل ازم دیکھ رہے ہیں، یا محض ایکٹو ازم کے مختلف مظاہر……؟
صحافت اور ایکٹو ازم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ صحافت تحقیق، غیر جانب داری اور سچائی پر مبنی ہوتی ہے، جب کہ ایکٹو ازم کسی خاص ایجنڈے یا نظریے کو فروغ دینے کی کوشش کا نام ہے۔
اگر کوئی صحافی غیر جانب دار رہے اور تمام فریقین کا موقف درست طریقے سے عوام کے سامنے پیش کرے، تو وہ حقیقی صحافت کر رہا ہوتا ہے…… لیکن جب وہ کسی مخصوص نظریے، سیاسی جماعت یا مفاداتی گروہ کی طرف جھکاو اختیار کرلیتا ہے، تو وہ ایک ایکٹیوسٹ بن جاتا ہے۔
آج کے دور میں یہ فرق مٹ چکا ہے اور زیادہ تر میڈیا ہاؤسز مخصوص ایجنڈوں کی ترجمانی میں مصروف ہیں۔
موجودہ میڈیا کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں غیر جانب داری ختم ہو رہی ہے۔ کئی نیوز چینل اور اخبارات سیاسی یا معاشی مفادات کے تابع ہو چکے ہیں۔ رپورٹر اور اینکر جان بوجھ کر کسی خاص موقف کو زیادہ نمایاں کرتے ہیں اور مخالف نظریے کو کم زور یا متنازع ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کو یک طرفہ اور متعصب معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جو کہ ایک صحت مند جمہوری معاشرے کے لیے نقصان دہ عمل ہے۔
صحافت میں جانب داری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک بڑی وجہ سیاسی وابستگی ہے۔ بہت سے صحافی اور میڈیا ہاؤس کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور اُن کی رپورٹنگ بھی اسی کے مطابق ہوتی ہے۔ کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے خبریں سیاق و سِباق سے ہٹ کر پیش کی جاتی ہیں، مخالفین کو بدنام کیا جاتا ہے اور عوام کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے مخصوص زبان اور انداز اپنایا جاتا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف صحافت کے اُصولوں کے خلاف ہے، بل کہ جمہوری اقدار کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
سوشل میڈیا کے آنے کے بعد صحافت کا معیار مزید متاثر ہوا ہے۔ ماضی میں خبر کی تصدیق اور تحقیق ضروری سمجھی جاتی تھی، لیکن آج کل ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی دوڑ میں بغیر تصدیق کے خبریں چلائی جا رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہر کوئی ’’صحافی‘‘ بن کر اپنی رائے کو خبر بنا کر پیش کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جھوٹی اور غیر مصدقہ خبریں تیزی سے پھیلتی ہیں، جس سے عوامی شعور مزید متاثر ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر کام کرنے والے کئی صحافی اپنی غیر جانب داری کھو چکے ہیں اور وہ کسی نہ کسی نظریے کے حامی بن چکے ہیں۔
ایک اور مسئلہ ’’ایجنڈا بیسڈ رپورٹنگ‘‘ ہے۔ میڈیا ادارے مخصوص بیانیے کو فروغ دینے کے لیے خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ حقائق کو مکمل طور پر بیان کرنے کے بہ جائے اُنھیں اس طرح ایڈٹ کیا جاتا ہے کہ وہ کسی مخصوص نظریے کو تقویت دیں۔ اس قسم کی صحافت نے عوام کو گم راہ کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی خبر کو مختلف چینل اور اخبارات پر بالکل مختلف زاویے سے رپورٹ کیا جاتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل خبر کے بہ جائے ایجنڈا زیادہ اہم ہوچکا ہے۔
صحافت کے اس زوال کے پیچھے ایک اور اہم عنصر مالی مفاد بھی ہے۔ کئی میڈیا ادارے اشتہارات اور سپانسر شپ کے ذریعے اپنے مالی معاملات چلاتے ہیں اور اس کے بدلے میں اُنھیں مخصوص نظریات یا افراد کے حق میں خبریں پیش کرنا پڑتی ہیں۔ جو ادارے مالی طور پر خودمختار نہیں ہوتے، وہ مخصوص حلقوں کے دباو میں آ کر رپورٹنگ کرتے ہیں، جس سے غیر جانب داری کا اُصول مزید کم زور ہوجاتا ہے۔
صحافت کے انحطاط کے باوجود، اب بھی ایسے صحافی موجود ہیں جو سچائی، غیر جانب داری اور تحقیق کو ترجیح دیتے ہیں…… مگر اُن کی آوازیں اکثر ان میڈیا اداروں میں دب جاتی ہیں، جو مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔
اگر صحافت کو اس کے اصل اصولوں پر واپس لانا ہے، تو ضروری ہے کہ عوام بھی جانب دار میڈیا سے سوال کریں اور خود تحقیق پر مبنی معلومات تک رسائی حاصل کریں۔
کیا ہم دوبارہ غیر جانب دار صحافت کی طرف جا سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہاں میں ہوسکتا ہے، لیکن اس کے لیے صحافیوں، میڈیا اداروں اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ صحافیوں کو اپنی غیر جانب داری پر زور دینا ہوگا۔ میڈیا اداروں کو مالی دباو سے آزاد ہونا ہوگا اور عوام کو بھی ایک ہی ذریعے پر انحصار کرنے کے بہ جائے مختلف ذرائع سے معلومات لینا ہوں گی۔
آخر میں، اگر موجودہ صورتِ حال پر نظر ڈالی جائے، تو یہ واضح ہے کہ آج کل جرنل ازم کم اور ایکٹو ازم زیادہ ہو چکا ہے۔ صحافت کا مقصد عوام تک سچ پہنچانا ہونا چاہیے، نہ کہ انھیں کسی مخصوص نظریے پر مائل کرنا۔
اگر ہم صحافت کو اس کے اصل مقام پر واپس لانا چاہتے ہیں، تو ہمیں غیر جانب داری، تحقیق اور سچائی کو فروغ دینا ہوگا۔ بہ صورتِ دیگر، ہم ایک ایسے معاشرے میں رہنے پر مجبور ہوں گے، جہاں حقیقت اور پروپیگنڈے میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
