میراوس بھی عجیب مخمصے کا شکار رہا۔ چارسدہ تنگی میں پیدا ہوا، وہاں جیا، وہاں انتقال کرگیا اور وہاں دفن بھی ہوا۔
کہتے ہیں کہ ناموں کا انسان کی زندگی پر بہت اثر ہوتا ہے۔ میراوس کے معاملے میں موضع ’’تنگی‘‘ (بہ معنی تنگ دستی) کا اثر بڑا عجیب رہا۔ اُس کی پوری زندگی تنگ دستی ہی سے عبارت رہی۔
میراوس کو ’’مرحوم‘‘ لکھتے وقت خود کو زندہ سمجھنا میرے لیے عجیب سا احساس ہے۔ حجروں کے زوال کے بعد ایک لمبے عرصے تک حجروں میں چٹکلوں کی مدد سے قہقہے برقرار رکھنا، ایک مِزاح نگار کے طور پر طنز و مزاح سے بھرپور کلچر کی بنیاد رکھنا میراوس جیسے فن کار ہی کا کارنامہ تھا۔ لوگ ٹیپ ریکارڈر کے دور میں اُس کی کیسٹوں کے پیچھے دیوانہ وار پھرتے۔ ٹیلی وِژن کے رواج پانے کے بعد بھی معاشرے میں اُس کے لیے بڑا سپیس تھا۔ کئی دہائیوں سے یک تا اور منفرد ہنسانے والا میراوس معاشرے کو عدمِ برداشت اور رواداری کے عروج پر پہنچا کر منوں مٹی تلے دب گیا۔
یہ بھی شاید میراوس کی طنز ہی تھی کہ جب معاشرے کو ہنسنے مسکرانے کی شدید ضرورت تھی، تو اُس نے ایڑیاں رگڑنے اور کوچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
بھٹو (مرحوم) کے جذباتی اور طلسماتی دور کے بعد ضیاء الحق کے شدید گھٹن زدہ دور میں، جہاں ہر چیز ’’سنسر‘‘ کی چھلنی سے چھانی جاتی، ادب، ثقافت اور تہذیب سب کو ’’مسلمان‘‘ بنایا جا رہا تھا…… ضیا، مغل بادشاہ اکبر کی طرح ایک اور ’’دینِ الٰہی‘‘ تشکیل دے رہا تھا، جس میں اُس کے ’’نو رتن‘‘ نے دربار کی جگہ مجلسِ شورا میں بیٹھ کر سیاہ روشنائی ہاتھوں میں لی تھی اور جو مخالفت کرتا، اپنی من کی سیاہی اُس کے ساتھ ملاکر مخالفت کرنے والے کے منھ پر ملنے کی کوشش کرتے۔ وہ خود ہی مدعی، منصف اور جلاد تھے۔ وہ ایک انتہا پسند، پُرتشدد اسلام متعارف کرا رہے تھے۔ ’’اسلام امن و سلامتی کا دین ہے‘‘ ایک طرح سے اس قول کی نفی کر رہے تھے۔ فتحِ مکہ پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلوک سے منھ پھیر رہے تھے۔ اس حکم سے بھی منھ پھیر رہے تھے کہ ’’کسی پر 99 فی صد تاویلیں کفر ظاہر کریں اور محض ایک فی صد اس کے خلاف ہو، جو اُسے مسلمان ظاہر کرے، تو وہ ایک فی صد، 99 فی صد کو باطل قرار دے گی۔‘‘
’’اقرار باللسان‘‘ انسان کے لیے کافی ہے، ’’تصدیق بالقلب‘‘ کا فیصلہ محض اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ یہ اور ان جیسی دیگر باتوں کی ضیا اور اس کے حواریوں کے ’’خود ساختہ دین‘‘ میں ہرگز گنجایش نہیں تھی۔ میراوس (مرحوم) خود متعدد مرتبہ جان اور ایمان بچاتے ہوئے رواداری کے دور سے شدید انتہا پسندی اور ڈنڈے والی سینسر شپ سے معاشرتی سینسر شپ کے دور میں چلتے چلتے آخرِکار تھک ہار کر بستر سے لگ گیا۔ اُس کا دل گردہ دیکھیے کہ بستر سے لگ کر بھی ملنے والوں کو ہنسانے کے ساتھ ساتھ رُلاتا رہا۔
بیش تر پختون فن کو پسند کرتے ہیں، مگر فن کار سے نفرت کرتے ہیں۔ پختون، فن کار کے ساتھ ہنسنا اور محظوظ ہونا جانتے ہیں، مگر فن کار کے بہتے آنسو دیکھنا اور خالی پیٹ کے درد کو محسوس کرنا ان کے بس کا روگ نہیں۔
دوسری طرف کارپوریٹ کلچر نے میراوس کو پس منظر اور پختون معاشرے کو مواصلات و نشریات کے ایک نئے جنجال میں دھکیل دیا۔ ٹیکنالوجی نے پختونوں کی اکثریت کو بری طرح متاثر کیا اور مُثبت اثرات لینے کی جگہ اس کے منفی، پُرتشدد اور مسترد شدہ صورت میں اثرات لینے پر تسکین محسوس کی۔
پختون معاشرے کے ٹھکرائے جانے کے بعد میراوس نے روٹھی زندگی اور منتظر سامعین کے ساتھ رشتہ استوار رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ کئی پیشے اختیار کیے۔ آخر میں منت سماجت پر اُتر آئے، مگر پختون معاشرے کو تو خود کو بدلنے کا ہوش نہیں، میراوس کو خاک سنجیدگی سے لیا جاتا…… وہ بے چارہ سسکتا رہا، روتا رہا اور بالآخر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے کوچ کرگیا۔
میراوس پر ’’قومی ترانے‘‘ کی پیرودڈی کرنے، قومی ’’راہ نماؤں‘‘ کی ’’بے حرمتی‘‘ کرنے اور معاشرے پر تنقید کرنے کے حوالے سے کئی تعزیرات لگیں۔ اُس کو خلافِ ریاست، خلافِ مذہب، خلافِ اخلاق اور پتا نہیں کیا کیا کَہ کر پکڑا گیا، مگر حساس اور بے ضرر میراوس ہر دفعہ ذہنی و جسمانی اذیت پاکر دوبارہ اپنے کام میں جت جاتا۔
آج بھی میراوس نے کچھ مختلف کیا، جیسا اُس نے پہلے نہیں کیا تھا۔ اُس نے دوسروں کو ہنسانے کی جگہ خود اس معاشرے پر قہقہہ لگایا، معاشرتی بے حسی پر خوب ہنسا، مجموعی رویوں پر طنز کے نشتر برسائے اور اس معاشرے سے منھ موڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔
واقعی وہ ’’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ کا مستحق تھا، جس نے ایک گھٹن زدہ زندگی گزاری اور مشکل ترین حالات میں دوسروں کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ اُس کی روح کو راحت دے اور اسے اپنی شان کے مطابق انصاف دے۔ اس کی تمام محرومیوں اور تمام تر لاچارگی کے بدلے اُسے اپنی شان کے مطابق اعلا مرتبے سے نوازے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
